021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولادمیں تقسیم کردہ جائیدادکی دوبارہ تقسیم
70332ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

مفتیان کرام سے اس مسئلے میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے کہ:

1997ء میں والدین نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ تم اس آدھے پلاٹ کی پہلی منزل پر آ کر رہو، اور جو سونا بیوی کا رکھا ہوا ہے وہ لے کر اس سے تعمیر کرو۔ اس منزل پر کسی قسم کی کوئی تعمیر اور چھت نہ تھی ، والدین نے اپنے بیٹے کے ذریعے  بہو سے سونے کا مطالبہ کیا کہ سوناد،و اس سے ہم تمھارے رہنے کے لیے کمرہ بنائیں گے۔ بہونے دینے سے انکار کیا۔ والدین کے اصرار پر بیٹے نے بیوی سے سونے کا مطالبہ کیا۔بیوی سو نا دینے پر راضی نہیں تھی لیکن شوہر کے اصرار پر بیوی کے والدین نے دو معتبر افراد کے سامنے ساری صورت حال ر کھ کر ان کے ذر یعہ وہ سونا اپنی بیٹی کے ساس سسر کے حوالے کیا، اس کے بعد بھی ایک دو سال تک سونا واپس ملنے کی امید سے اس بیوی نے اس سونے کی زکوة بھی ادا کی اور لڑکی کے ساس سسر نے سونا لے کر اپنے بیٹے کو تعمیرات کا سامان منگوا کر دیا کچھ سامان بیٹے نے مزید اپنی رقم سے خریدا، جس کے ذر یے ایک کمرہ اورحمام بنایا گیا اور لوہے کی چادر کی چھت  ڈال کر اس بیٹے نے وہاں رہائش اختیار کر لی۔

اس کے بعد2001ء میں والدین نے اپنی اولاد میں جائیداد کی تقسیم کی،جس میں بڑے بیٹے کے حصے میں اسی پہلی منزل پر اس جگہ کے ساتھ مزیدتقر یباً20 گزبڑ ھادی مکمل تقسیم کی تفصیل یوں ہے: 2001ء  میں والدین نے اپنی اولاد چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے درمیان یوں تقسیم کی: اپنے رہائشی 120 گز کے ڈیڑھ پلاٹ  میں جس میں سب رہائش پذیر تھے .

  2001ء میں مکان یعنی 120گز کے ڈیڑھ پلاٹ ( ایک پلاٹ 80گز کااور آدھا پلاٹ 40 گز )کی تقسیم اس طرح سے کی کہ 80 گز والے پلاٹ کےپونے حصے کی زمینی منزل پر والدین کی رہائش اور اس کی پہلی اور دوسری منزل تیسرے بیٹے کے لیے (جس کی تعمیر2003 میں کر لی گئی اور  رہائش بھی ہو گئی )جبکہ والدین کے رہائشی زمینی منزل

کے بارے میں والدین کا یہ فیصلہ تھا کہ جب تک والدین حیات ہیں تب تک ان کا، اس کے بعد بھائیوں کے درمیان تقسیم ہو گا۔

ڈیڑھ پلاٹ کا بقیہ حصہ ( ایک پلاٹ 80گز کااور آدھا پلاٹ 40 گز ) کی تین بھائیوں میں اس طرح تقسیم کی گئی کہ زمینی حصہ دوسرے بیٹے کا (جس پر 2002 ءمیں تعمیراتی کام کر واکر رہائش اختیار کرلی)، پہلی منزل بڑے بیٹے کی (جس پر 2002ءمیں دوبارہ تعمیراتی کام اور پکی چھت کا کام کرواکر رہائش اختیار کرلی)جبکہ دوسری منزل چوتھے بیٹے کی جس نے اب تک اپنے حصے کی تعمیر نہیں کروائی،بلکہ ان میں بڑا بیٹا اپنے حصے کا تعمیراتی کام کروارہاتھا، اور اس کے اپنے حصے پر تعمیراتی کام آخری مراحل میں تھا، اس بڑے بیٹے کے ایک تہائی حصہ پر ایک کمرہ اور تمام کا پلاسٹر و فنشنگ کا کام باقی تھا، تو والدین نے بڑے بیٹے سے کہا کہ چوتھے بیٹے کے پاس اپنا حصہ تعمیر کرانے کی ابھی گنجائش نہیں ہے اور اس کی شادی بھی ہے، اس لیے تمھارا گزارہ فی الحال ایک کمرے میں ہو جائے گا تو ایک کمرہ اورحمام جس کی فشنگ باقی ہے وہ رہائش کے لیے اس کو دے دو، دو سال بعد یہ اپنے حصے پر تعمیر کر لے گا اور پھر اپنی جگہ چلا جائے گا، تو بڑے بیٹے نے والدین کو اجازت دے دی، اس کے اگلے دن چو تھابیٹا اپنے بڑے بھائی کے پاس آیا کہ بھائی چونکہ یہ تمھارا حصہ ہے اس لیے تم اپنی مرضی و طبیعت کے مطابق کام کروالو، اس پر بڑے بھائی نے اسے کہا چونکہ فی الحال تم نے رہنا ہے اس لیے تم خود ہی فنشنگ وغیرہ  کر والو، جس پر چھوٹے بھائی نے فنشنگ کروائی اور اس کی شادی ہو گی اور اس وقت سے اب تک یہ اس بڑے بھائی کے حصے پر رہائش اختیار کیے ہوئے ہے۔

 دو بیٹیوں کے بارے میں یہ بات طے کی تھی کہ غیر آباد  جگہ  چند پلاٹ  لیے ہوئے ہیں اس میں ایک پلاٹ  میں سے آدهاآدھا پلاٹ  دونوں بیٹیوں کو دے دیں گے ، لیکن پھر بعد میں یہ وجہ سامنے آئی کہ چونکہ دونوں دامادوں میں آپس میں کشیدگی کی وجہ سے سمجھوتہ مشکل ہو گا۔ اس لیے آدھے آدھے پلاٹ کے بجائے  ایک ایک پلاٹ دونوں بیٹیوں کو دے دیں گے، جو قریبا چند سال قبل ان دونوں کو ایک ایک پلاٹ دے دیا گیا۔

چونکہ والدہ کا انتقال 2007ء میں ہو گیا اور اور پھر دوسرے بیٹے کی 2011ءمیں شہادت ہو گئی، تو 2012 ءمیں پہلے تقسیم ہو جانے کے باوجودکسی  مصلحت اور خواب کی تعبیر کی بناپر والد صاحب نے پہلی تقسیم میں تبدیلی کر کے اس ڈیڑھ پلاٹ  (40 + 80گز) کی چار کے بجائے تین بھائیوں میں آوها آدھا  پلاٹ  تقسیم مقرر کی، اس طرح تقسیم کرنے کے ساتھ والد صاحب نے یہ بھی ہے کیا کہ ان کی حیات تک مرحوم کی اولاد زمینی منزل کے جس حصہ پر رہتی ہے ،وہیں رہے گی پھر اپنی دوسری جگہ چلی جائے گی چونکہ مرحوم بیٹے نے دوسری جگہ کچھ پلاٹ لیے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ مرحوم بیٹے کی اولاد کے لیے یہ طے کیا کہ مرحوم نے اپنی حیات میں کچھ جگہ خریدی ہوئی تھی تو اسے بیچ کر اس کے ساتھ کچھ رقم ملا کر علاقہ میں مناسب پلاٹ خرید لیں گے ، اس کے لیے کوشش بھی کی گئی، لیکن پھر نہیں خریدا گیا۔ اب پہلی تقسیم کے مطابق چوتھے بیٹے نے بڑے بیٹے کے حصہ پر اجازت کے ساتھ عارضی طور رہائش اختیار کی تھی کہ وہ اسے خالی کر تا ہے نہ والد صاحب اس سے خالی کراتے ہیں، بعد میں تقسیم میں جو تبدیلی کی تھی اس کے مطابق اپنے حصے کی دوسری منزل پر والد صاحب نہ بڑے بیٹے کو تعمیر کرنے دیتے ہیں ، بلکہ بعض دفعہ بڑے بیٹے سے یہ کہتے ہیں کہ آپ کے گھر چھوڑ کر چلے جاؤ، جس پر بڑا بیٹا کسی طرح بھی راضی نہیں ہے، بلکہ وہ پہلی تقسیم اور دوسری مرتبہ تقسیم میں جو تبدیلی کی تھی اس پر مصر ہے۔برائے مہربانی اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ان باتوں میں شرعی رہنمائی فرمایئے:

1- پہلے جو تقسیم ہو گئی تھی اور جن تین بیٹوں نے اس کے مطابق تعمیراتی کام کر واکر رہائش اختیار کر لی وہ ان بیٹوں کا ہو گیایا والد کی ملک ہے؟

2-والد صاحب نے یہی تقسیم ہو جانے کے با وجود 2011ءمیں تبدیلی کر کے آدھے آدھے پلاٹ کا فیصلہ کیا وہ تقسیم صحیح ہے یا نہیں ؟ کیا والد صاحب اس مکان کو بیچ  سکتے ہیں یا نہیں جبکہ بڑا بیٹا اپنا حصہ کسی صورت بیچنے پر یاکسی اور جگہ سے تبدیل کرنے پر راضی نہیں؟

3- والد صاحب کسی بیٹے کاحصہ دوسرے بیٹے یا کسی اور کو دے سکتے ہیں یا نہیں جبکہ وہ بیٹا اپناو ہ حصہ کسی حال میں چھوڑنے کو تیار نہ ہو؟ واضح رہے کہ چھوٹے بیٹے نے اپنے حصے کی جگہ دوسری منزل پر ابھی تک تعمیر نہیں کی اور بڑے بھائی کے مجھے کی ایک جگہ پر رہ رہا ہے، کئی دفعہ کہنے کے با وجود وہ خالی نہیں کر رہا، اور بڑے بیٹے نے والد صاحب سے 2010ء اور اس کے بعد وقتا فو قتاً اور خواست کی تو کوئی معقول جواب نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ وہ تعمیر کرے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق والد صاحب نے پہلےتواپنے بیٹوں کو عارضی طورپرگھر میں رہائش دی پھر 2001ء میں باضابطہ تقسیم کرکے ہرایک کا حصہ ان  کے حوالے کردیا  ۔اس لیے جس قدر حصہ جس بیٹے یا بیٹی کو تملیکاً حوالے کیاگیاہے وہ اس کی ملکیت ہے۔ اب والدصاحب ان کی رضامندی کے بغیر ان سے واپس نہیں لے سکتے۔ وفات پانے والے بیٹے کا حصہ چونکہ اس کی زندگی میں اس کےحوالے کردیاگیاتھا اس لیے اب والداور والدہ اس بیٹے کی وفات کے بعد میراث میں ملنے والے اپنے چھٹے،چھٹے حصے کے مالک ہیں اس میں جو تصرف کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مرحوم بیٹے کی بیوی اور اوراس کی اولاد کو ملنے والاحصہ ان سے واپس نہیں لے سکتے۔ ہاں بیوہ یا بالغ اولاداپنے حصے میں ابھی اور نابالغ اولاد بالغ ہونے کے بعد جس قسم کے تصرف  اور تبادلےپر راضی ہوں وہ درست ہوگا۔

 2- تملیکاً کسی بیٹے کو سپرد کیا گیا حصہ والد صاحب زبردستی اس بیٹے  کی رضامندی کے بغیر زبردستی واپس نہیں لے سکتے۔

3-چھوٹا بیٹا جس نے عاریتاً بڑے بھائی کے حصے پر عارضی رہائش اختیار کی ہوئی ہے وہ اصل مالک یعنی بڑے بھائی  کے مطالبہ پر مکان خالی کرنےکاشرعاًپابند ہے۔بلاوجہ بھائی کے حصے پر قابض رہنے کی وجہ سےگنہگار ہوگا۔

حوالہ جات
الأصل المعروف بالمبسوط للإمام محمد بن الحسن الشيباني (3/387)ط:قطر
قلت: أرأيت رجلًا يهب لرجل الهبة ويدفعها إليه هل يستطيع أن يرجع فيها؟ قال: إن كانت الهبة قائمة بعينها لم تزدد خيرًا وليس الموهوب له بذي رحم محرم ولم يعوض الواهب فله أن يرجع فيها.
صحيح البخاري مع فيض الباري (4/49):
قال الإمام البخاري رحمہ اللہ :
وقال النبي  ﷺ "اعدلوا بين أولادكم فى العطية". وهل للوالد أن يرجع فى عطيته وما يأكل من مال ولده بالمعروف ولا يتعدى...
قال الإمام الکشمیری رحمہ اللہ :
"قوله: (وهل للوالد أن يرجع في عطيته) ليس للوالد أن يرجع في هبته لولده، وهو الحكم عندنا في كل ذي رحم محرم، وجوزه الشافعي في هبة الوالد لولده خاصة، وله في ذلك حديث عند الترمذي، أخرجه في "البيوع[الترمذي ٣/٥٧٥ أحمد ٢/‏٣٢٧، وأبو داود ٣/‏٨٠٨، حديث ٣٥٣٩، والترمذي ٤/‏٤٤٢، والنسائي ٦/‏٢٦٧-٢٦٨، وابن ماجة ،حديث ٢٣٧٧، والدارقطني ،حديث ١٧٧، والبيهقي ٦/‏١٧٩، والحاكم ٢/‏٤٦، وابن حبان ١١٤٨- موارد، والطحاوي في شرح معاني الآثار ٤/‏٧٩، كلهم من طريق عمرو بن شعيب عن طاوس عن ابن عمر وابن عباس]" عن ابن عمر مرفوعا، قال:"لا يحل لأحد أن يعطي عطية، فيرجع إلا الوالد فيما يعطي ولده". اهـ. فالحديث حجة علينا في الجزءين: فإن المشهور أن الرجوع عن الهبةجائز عندناعند فقدان الموانع السبعة، وجمعها النسفي في منظومته:
            قد يمنع الرجوع عن الهبة … يا صاحبي حروف: دمع خزقہ
ولا يجوز للوالد أن يرجع عن هبته لولده؛ قلت: أما مسألة جواز الرجوع في الهبة عند فقدان الموانع السبعة، فهو حكم القضاء دون الديانة؛ فيكره الرجوع ديانة عند عدم الموانع السبعة أيضا، إما كراهة تحريم، كما في قول، أو كراهة تنزيه، كما في قول آخر. والحديث محمول عندنا على حكم الديانة دون القضاء. ثم جواز الرجوع مشروط، إما القضاء، أو الرضاء؛ فلا يجوز بدون أحدھما. والمفتون في زماننا يفتون بجواز الرجوع عند عدم الموانع السبعة مطلقا؛ وليس بصحيح، فإن قيد الرضاء، أو القضاء مذكور في متن"الكنز"، فاعلمه، ولنا حديث ابن ماجه: "الواهب أحق بالهبة ما لم يثب منها."
بقي الجواب عن الاستثناء، فأقول: إن ما يصرفه الوالد من مال ولده ليس رجوعا، بل من باب؛ "أنت ومالك لأبيك" فيده مبسوطة في مال ولده، فإنه يجوز له أن يأكل من مال ولده ، سواء كان مما وهبه له، أو غيره؛ لكن لما كان استعمال المال الذي وهبه له رجوعا صورة، نزله منزلة الرجوع، ووضعه موضع الاستثناء من الرجوع، وإلا فهو ليس برجوع، ولكنه تملك مستأنف بحكم الحديث: "أنت، ومالك لأبيك"، وقد نبهناك مرارا أن الحديث لا يأخذ إلاصورة الواقع ، وأما التخاريج فهي من أفعال الفقهاء والمجتهدين؛ وليس في الظاهر إلا الرجوع، فهو رجوع في وظيفة الحديث، وتملك مستأنف في وظيفة الفقهاء."

سیف اللہ تونسوی                   

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی                                                                                           

3/ربیع الاول 1442ھ   

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب