021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لے پالک بیٹے/متبنی کے شرعی احکام
70485جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

میرے بھائی عطاء اللہ نے 2014ء میں شادی کی،مگر بدقسمتی سے اب تک اس کی کوئی اولاد نہ ہوسکی، اب میرے بھائی نے سالی کا بیٹا گود لیا ہے ،اب جب یہ لڑکا بالغ ہوجائے گا تو کیا میری بہنوں اوروالدہ پر اس لڑکے سے پردہ کرناضروری ہوگایا نہیں ؟اگراس لڑکےکا فارم "ب" یا شناختی کارڈ بناناہویا مدرسہ یا اسکول میں اس کو پڑھانا ہو تو کیا اسناد میں والد کے خانے میں حقیقی والد کے علاوہ میرے بھائی یعنی پرورش والے کا نام لکھناصحیح ہوگا؟ اوراس بچے کا کیا وراثت میں کوئی حق ہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعاًکسی بچے کومنہ بولا بیٹا بنانا ،اس کی پرورش کرنا ،اور بیٹے کی طرح پالنااور تربیت کرنا  اگرچہ جائز ہے،  لیکن شرعی لحاظ سے وہ حقیقی طور پر نسبی بیٹا نہیں بنتا ،اور نہ ہی اس  پربیٹے ہونے کے احکامات  مثلاًوراثت ،اورشرعی پردہ وغیرہ جاری ہوتے ہیں،اور پرورش کرنے والا بچے کا حقیقی والد نہیں ہوگا،لہذا صورتِ مسئلہ میں  آپ کے بھائی کے لئے اس بچی کی پرورش کرنا ،اس کی  تعلیم وتربیت کرنا  ،اور ایک دوسرے کے ساتھ باپ بیٹے کی طرح پیش آناتو جائزہوگا  ،لیکن  اس کے نام ونسب کواس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کر نا ضروری ہے لہذا اس  کےبرتھ سرٹیفکیٹ،"ب"فارم، شناختی کارڈ،پاسپورٹ وغیرہ میں آپ کے بھائی کےلیےاپنا نام بطوروالدلکھنا جائز نہ ہوگا،اسی طرح جب وہ بچہ بالغ ہوجائے تو آپ کی والدہ اوربہنوں پراس سے پردہ کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
 ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله.
وفی تفسیر الوجيز للواحدي (ص: 858) :
{ادعوهم لآبائهم} أي: انسبوهم إلى الذين ولدوهم {هو أقسط عند الله} أعدل عند الله {فإن لم تعلموا آباءهم} من هم {فإخوانكم في الدين} أي: فهم إخوانكم في الدين {ومواليكم} وبنو عمكم وقيل: أولياؤكم في الدين {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} وهو أن يقول لغير ابنه: يا بني من غير تعمد أن يجريه مجرى الولد في الميراث وهو قوله: {ولكن ما تعمدت قلوبكم} يعني: ولكن الجناح في الذي تعمدت قلوبكم.
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 585)
قال - عليه الصلاة والسلام - «من انتسب إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.
وفی مجلة مجمع الفقه الإسلامي (2/ 24006)
فقد حرم الإسلام التبني بنص القرآن الكريم ، وأن ينتسب الإنسان لأحد غير أبيه ، اللهم إلا أن يكون انتسابا مقيدا بعلم أو بسلوك .جاء في كتاب الدرر المباحة في الحظر والإباحة للنحلاوي ما نصه : "ومن حقهما - أي الوالدين - أن يتملق لهما ، ولا يرفع صوته فوق صوتهما ، ولا يجهر لهما بالكلام ، ويطيعهما فيما أباح الدين ، فإن رضاء الله في رضاهما ، وسخطه في سخطهما ، ولا ينتمي إلى غير والديه استنكافا منهما ، فإنه يوجب اللعنة" .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ     

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 12/3/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب