021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کو دی گئی زمین واپس لینے کا حکم اور بیٹے کی تقسیم میراث
70384میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

زید نامی شخص کی دو بیویاں ہیں، ہر بیوی سے چار، چار بیٹے اور چار، چار بیٹیاں ہیں، کل آٹھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں۔ زید اور اس کی دونوں بیویاں زندہ ہیں۔ زید نے اپنی ساری جائیداد اور مال و متاع میں ہر ہر بیٹے کو اپنا اپنا حصہ دیا، بیٹیوں کو نہیں دیا۔ بیٹوں کو جو کچھ دیا، اس کا قبضہ بھی دیا۔ زید کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا فوت ہوگیا، اس کی کوئی اولاد نہیں، بیوی زندہ ہے جوکہ زید کی بھانجی بھی ہے، اس کے والدین یعنی زید اور اس کی اہلیہ زندہ ہیں، جبکہ دادا، دادی اور نانی کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس فوت شدہ بیٹے کو زید نے اپنی جائیداد سے مکان کے لیے جو حصہ دیا تھا، اس میں اس نے مکان بنایا تھا، اس کے پاس گاڑی اور موٹر سائیکل بھی تھی جن کی قیمت تقریبا 25 لاکھ روپے ہے۔ اس صورتِ حال میں مندرجہ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:-

  1. والد صاحب مکان واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا والد کو تقسیم ہونے کے بعد فوت شدہ بیٹے کی میراث میں سے کچھ مل سکتا ہے یا نہیں؟
  2. میراث میں فوت شدہ بیٹے کی بیوی کو کچھ ملے گا یا نہیں؟
  3. فوت شدہ بیٹے کے بھائیوں کا اس کے مال میں کچھ حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوالات کے جوابات سے پہلے یہ بات جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ اگر والد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہےکہ وہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر، برابرحصہ دیں، البتہ میراث کے قاعدہ کےمطابق بھی تقسیم جائز ہے، یعنی  بیٹے کو بیٹی کےمقابلہ میں دوگناحصہ دیں،لیکن بلاوجہ بیٹی کو اس سے بھی کم دینایابالکل محروم کرناجائزنہیں ہے۔ صورتِ مسئولہ میں زید نے اپنے آٹھ بیٹوں کو تو حصہ دیا، لیکن آٹھ کی آٹھ بیٹیوں کو کوئی حصہ نہیں دیا جوکہ شرعا ناجائز ہے، زید اس کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوا ہے، اب تلافی کا طریقہ اور زید کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بیٹیوں کو بھی بیٹوں کے برابر، برابر یا کم از کم ہر بیٹے کو دئیے گئے حصے کا آدھا ہر ہر بیٹی کو دیدے، اس کے بغیر اس ظلم کا گناہ ختم نہیں ہوگا، ساتھ ساتھ توبہ اور استغفار بھی کرے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ زید اپنے بیٹے کو دی ہوئی زمین واپس نہیں لےسکتا، البتہ دیگر ورثا کی طرح اسے بھی بحیثیتِ وارث اپنے بیٹے کے ترکہ میں حصہ ملے گا۔

مرحوم بیٹے کی میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس نے اپنے انتقال کے وقت مذکورہ مکان، گاڑی اور موٹر سائیکل سمیت سونا، چاندی، نقدی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا بڑا ساز و سامان چھوڑا ہو، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کیے ہوں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا، اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا، اگر مرحوم نے بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض ہے جو ترکہ کی تقسیم سے قبل اس کی بیوہ کو دیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، اس کو کل بارہ (12) حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو تین (3) حصے، والدہ کو دو (2) حصے، اور والد کو بقیہ سات (7) حصے دیدیں۔ مرحوم کے بھائی، بہنوں اور سوتیلی والدہ کو اس کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ ترکہ کی تقسیم کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔

مسئلہ 12:                                 

               میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بیوہ

والدہ

والد

ربع

سدس

عصبہ

3

2

7

٪25

16.666%

58.333%

 

 

 

 

 

 

 

نوٹ:- جیساکہ اوپر بیان ہوا کہ بیٹیوں کو حصہ دینا زید پر لازم ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ بیٹے کی میراث سے ملنے والے حصے سمیت اپنے دیگر اموال سے بیٹیوں کا حق ادا کرکے جلد از جلد اس گناہ سے اپنا ذمہ فارغ کرنے کی کوشش کرے۔

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2 / 183):

وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : " فأرجعه " . وفي رواية : أنه قال : " أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".

رد المحتار (4/ 444):

وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة،وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره،وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، وقال محمد يعطى للذكر ضعف الأنثى،وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى: قال ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

القرآن الکریم:

{وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11].

{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12].

السراجی فی المیراث (15-14):

أما الأب فله أحوال ثلاث: الفرض المطلق، و هو السدس، و ذلك مع الولد و ولد الإبن و إن سفل، و الفرض و التعصیب معا، و ذلك مع الابنة أو ابنة الابن و إن سفلت، و التعصیب المحض، و ذلك عند عدم الولد و ولد الابن و إن سفل.

و فی صفحة (30-28):
و أما للأم فأحوال ثلاث: السدس مع الولد أو ولد الإبن و إن سفل، أو مع الاثنین من الإخوة

و الأخوات فصاعدا من أی جهة کانا، و ثلث الکل عند عدم هؤلاء المذکورین، و ثلث ما بقی بعد فرض أحد الزوجین، و ذلك فی مسئلتین، زوج و أبوین، و زوجة و أبوین.

و فی صفحة (45-44):

والمحروم لا یحجب عندنا، و عند ابن مسعود رضی الله عنه یحجب حجب النقصان، کالکافر و القاتل و الرقیق. و المحجوب یحجب بالاتفاق کالاثنین من الإخوة و الأخوات فصاعدا، من أی جهة کانا؛ فإنهما لا یرثان مع الأب و لکن یحجبان الأم من الثلث إلی السدس.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

11/ربیع الاول/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب