021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
15 دن سے زیادہ قیام کی صورت میں نماز کے اتمام/قصر کا حکم
70531نماز کا بیانمسافر کی نماز کابیان

سوال

سوال : کوئی جہاز کسی دوسرے اسٹیشن پر (گوادر اسٹیشن کا جہاز کراچی ) پندرہ دن سے زائدکھڑا رہے تو قصر کریں گے یا پوری نماز پڑھیں گے؟

سوال : مسافر کے لیے سنتوں اور نوافل کا کیا حکم ہے؟

تنقیح:سائل سے کسی سٹیشن پر رکتے ہوئے عام معمول کی بابت پوچھا تو انہوں نے وضاحت کی کہ عام طور پر  کسی

 کام مثلا مینٹینس یا فیولنگ کے لیے آتے ہیں اور اس میں بھی کسی بھی وقت حکم آسکتا ہے کہ واپس سمندر میں فلاں جگہ پر چلے جائیں ۔یعنی کبھی ایسا ہوا نہیں کہ باقاعدہ طور پر نیت کرکے 15 دن ٹھہرے ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نماز کے اتمام یا قصر کرنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کسی جگہ پر قیام کرتے وقت نیت کیا ہے؟ اگر نیت 15 دن یا زائد کے رکنے  کی ہو،  تو مقیم شمار ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے۔ اور اگر نیت 15 دن کی نہ ہو تو چاہے ایک سال تک بھی رکنا پڑگیا تب بھی مسافر شمار ہوں گے اور قصر کریں گے۔

            لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ حضرات کسی سٹیشن پر رکتے ہوئے اپنے کمانڈنگ آفیسر کی  نیت کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ کیونکہ  نیت کا اعتبار اس جہاز کے جو بڑے ہوں مثلا کمانڈنگ آفیسر وغیرہ کہ جن کے حکم سے سفر کیا جاتا ہو ان کی نیت کا ہوگا۔مثلا  کمانڈنگ آفیسر کی نیت اگر یہ ہے کہ کچھ دن تک  جہاز کا کام ہے پھر روانگی ہے،اب اگر 50 دن بھی کھڑے رہیں تب بھی مسافر ہی شمار ہوں گے۔اور اگر شروع میں رکتے وقت یا بعد میں کسی وقت نیت یہ کی کہ 15 دن رکنا ہے ،پھر آپ مقیم شمار ہوں گے اور نماز پوری پڑھیں گے چاہے پھر 15 دن سے پہلے ہی آگے چل پڑیں۔

            نیزسفر کے دوران  فرائض کے علاوہ  وتر بھی لازم ہیں اور فجر کی سنتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے،البتہ باقی سنتوں اورنوافل  کے حوالے سے عام قاعدہ تو یہ ہے کہ اگر سفر جاری ہو اورجلدی ہو یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہو، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہو، یا خوف ہو تو   پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھنی چاہییں۔ اور اگر سفر جاری ہو اور  کسی مقام پر نماز کے لیے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو  اور امن ہو تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ بہرحال اس صورت میں بھی سنت کا حکم وجوب کا نہیں ہے، بلکہ پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو  چاہے، پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں  پڑھنی چاہییں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔

            اور آپ حضرات چونکہ بحری جہاز میں ہوتے ہیں لہٰذا سواری وغیرہ نکلنے کا خطرہ تو نہیں ہو تا لہٰذا اگر سنتوں اور نوافل کا بھی اہتمام کریں تو یہ افضل اور بہتر ہوگا،لیکن دشمن کا خوف ہو یا حفاظت پیش نظر ہو تو سنتیں چھوڑی بھی جاسکتی ہیں۔

حوالہ جات
وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة. (بدائع الصنائع فی :1/ 97)
و فی الفتاوی الھندیۃ:ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبدا ولو طاف الدنيا جميعها بأن كان طالب آبق أو غريم أو نحو ذلك ويكفي في ذلك القصد غلبة الظن يعني إذا غلب على ظنه أنه يسافر قصر ولا يشترط فيه التيقن، كذا في التبيين ويعتبر أن يكون من أهل النية حتى أن صبيا ونصرانيا إذا خرجا إلى السفر وسارا يومين ثم بلغ الصبي وأسلم النصراني فالصبي يتم والمسلم يقصر، كذا في الزاهدي. (الفتاوى الهندية :1/ 139)
                        قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:وقيد بالفرض؛ لأنه لا قصر في الوتر والسنن واختلفوا في ترك السنن في السفر، فقيل: الأفضل هو الترك ترخيصاً، وقيل: الفعل تقرباً، وقال الهندواني: الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل: يصلي سنة الفجر خاصةً، وقيل: سنة المغرب أيضاً، وفي التجنيس: والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنه ترك بعذر اه". (البحر الرائق:2/141)

محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

    23ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب