021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سامان فروخت کرنے کے ساتھ مرمت کی وارنٹی دینا
70566خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کسٹمر کمپنی سے کوئی چیز (مثلاً) موبائل خریدتا ہے تو کمپنی اسے ایک سال کی وارنٹی دیتی ہے کہ اس ایک سال کے دوران جو بھی خرابی ہوگی اس کی مرمت کمپنی کرے گی۔ کیا یہ جائز ہے اور وارنٹی پر مرمت کروانے کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خرید و فروخت کے معاملے میں ایسی کوئی اضافی شرط لگانا جس میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا نفع ہو، شرعاً جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شرط متعارف ہو چکی ہو تو وہ لگانا جائز ہے۔  اس اصول کی روشنی میں چونکہ آج کل کمپنیوں کی جانب سے مخصوص مدت تک مرمت کی شرط کا عرف ہو چکا ہے لہذا یہ شرط لگانا درست ہے اور اس وارنٹی کی بنا پر مرمت کروانا بھی درست ہے۔

حوالہ جات
(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد۔۔۔.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 5/85، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 24/ ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب