70612 | وقف کے مسائل | وقف کے متفرّق مسائل |
سوال
ہم ایک وکیشنل سینٹر بنانے جا رہے ہیں۔ اس کا پروپوزل یعنی طریقہ کار ہم نے بنا کر سب دوستوں کو شئیر کر دیا ہے۔ اس کے معاون بلال صاحب ہیں۔ بلال صاحب کہتے ہیں کہ میں اس پراجیکٹ کے لیے بھاری رقم دینا چاہتا ہوں لیکن اس میں عطیات اور زکاۃ دونوں شامل ہیں۔ ہم نے اس وکیشنل سینٹر میں کام کرنےوالی خواتین اور بچیوں سے وکالت نامہ لیا ہے۔ اس وکیشنل سینٹر میں بیوہ خواتین، طلاق یافتہ اور یتیم بچیاں کپڑا سینے اور امبرائڈری وغیرہ کا ہنر حاصل کریں گی تو اس کام کے لیے مشینوں وغیرہ کی ضرورت ہوگی۔ یہ مشینیں وغیرہ ان عطیات اور زکاۃ سے بعد از وکالت خریدنے کا ارادہ ہے۔ کیا زکاۃ کا مال اس میں جائز ہے یا نہیں؟
نیز ان خواتین کے ہنر حاصل کرنے کے بعد ہم ان خواتین کی بنائی ہوئی مصنوعات کی (جو ہمارے سینٹر میں بنائیں گی) پبلسٹی کریں گے اور منافع اس میں وکیشنل سینٹر کا بھی ہوگا اور خواتین کا بھی۔
اضافہ:
1۔ سائل نے وکالت نامہ ساتھ لف کیا ہے جس میں تفصیلات کے اندراج کے بعد یہ عبارت ہے:
" میں عاقل بالغ اس بات کا اقرار کرتا/ کرتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میں شرعی قاعدہ کی رو سے زکاۃ لینے کا/ کی واقعی مستحق ہوں۔ جب تک میں مستحق زکاۃ ہوں اس وقت تک پاک ایڈ ویلفیر ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اس بات کا وکیل بناتا/ بناتی ہوں کہ ٹرسٹ کی انتظامیہ یا اس کے نمائندے میرے وکیل کی حیثیت سے زکاۃ و صدقات کی رقوم یا اشیاء وصول کریں اور اسے میرے علاج و معالجہ اور طعام و قیام کی ضروریات میں حسب صوابدید خرچ کریں یا دیگر غریبوں اور مستحق افراد کے علاج و معالجہ اور طعام و قیام اور تعلیم وغیرہ کی ضروریات میں خرچ کریں یا پاک ایڈ ٹرسٹ کی دیگر ضروریات پر خرچ کریں یا پاک ایڈ ٹرسٹ کی ملکیت/ وقف میں دے دیں۔"
2۔ سائل نے بذریعہ واٹس ایپ آڈیو پیغام اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ وکالت نامہ پہلے کا ہے جو لوگوں سے پر کروایا گیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکور صورت میں اگر مستحقین زکاۃ اس وکالت نامے کی عبارت کو سمجھ کر اسے پر کرتے ہیں اور آپ کو اس کے ذریعے وکیل بناتے ہیں تو آپ کا ان کی جانب سے وکیل بن کر رقم وصول کرنا اور اس رقم پر قبضہ کرنے کے بعد اسے حسب صوابدید مذکورہ مدات (علاج ، قیام، طعام، تعلیم، ٹرسٹ کی ضروریات، ٹرسٹ کی ملکیت وغیرہ) میں خرچ کرنا درست ہے۔ چونکہ وکیشنل سینٹر کے مذکورہ بالا پراجیکٹ کا تعلق تعلیم سے ہے لہذا اس رقم سے اس کے لیے مشینیں اور ساز و سامان لینا درست ہے۔ البتہ چونکہ اس پراجیکٹ میں رقم آپ نے مستحقین زکاۃ کی طرف سے لگائی ہے لہذا زکاۃ ادا کرنے والے کو زکاۃ ادا کرنے کا ثواب ملے گا اور مستحقین زکاۃ کو پراجیکٹ میں لگانے کا ثواب ملے گا۔
حوالہ جات
(وهو إقامة الغير مقام نفسه) ترفها أو عجزا (في تصرف جائز معلوم، فلو جهل ثبت الأدنى وهو الحفظ ممن يملكه) أي التصرف نظرا إلى أصل التصرف، وإن امتنع في بعض الأشياء بعارض النهي، ابن كمال.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 5/511، ط: دار الفكر)
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
تاریخ: 29/ ربیع الاول 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |