021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چودہ برس کی عمر میں روزہ چھوڑنے کا حکم
70631روزے کا بیانوہ اعذار جن میں روزھ رافطارکرنا) نہ رکھنا( جائز ہے

سوال

مفتی صاحب! ہمارے خاندان  میں ایک لڑکے کی صحت خاصی کمزور ہے جس کی وجہ سے اُس لڑکے کے والدین اُسے روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ ابھی گذشتہ رمضان میں بھی اُس کے والدین نے اُسے روزے نہیں رکھنے دیے، جبکہ اُس لڑکے کی عمر اب چودہ برس ہوچکی ہے، لیکن بالغ ہونے کی جو علامتیں ہیں، وہ ابھی تک ایک بھی ظاہر نہیں ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اُس لڑکے پر کونسی عمر سے روزے فرض ہوں گے؟ کیا چودہ برس کی عمر میں اُس لڑکے کے والدین اُس کے روزے چھڑواسکتے ہیں؟ کہیں وہ اِس سےگنہگار تو نہیں ہوں گے؟ فقہ حنفی کی روشنی میں رہنمائی کی درخواست ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں روزہ اور دیگر عبادات کی فرضیت کا مدار لڑکے کے بالغ ہونے پرہے۔ لہذا اگر پندرہ سال کی عمر تک لڑکے میں بلوغت کی علامت نہ پائی جائے تو وہ نابالغ شمار ہوگا اور جب اُس کی عمر پندرہ سال ہوجائے تو اب اُسے بالغ قرار دیا جائے گا۔

  صورت مسئولہ میں چونکہ لڑکے کے بالغ ہونے کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی ہے، لہذا اگر اُس کی عمر پندرہ سال قمری سے کم ہے تو وہ نابالغ شمار ہوگا اور اُس پر روزے فرض نہیں ہونگے۔ اور اِس صورت میں اُس کے والدین اُس کو روزہ رکھنے سے روک سکتے ہیں۔اور اگر اُس کی عمر قمری لحاظ سے پندرہ سال مکمل ہوگئی ہے تو وہ بالغ شمار ہوگا اور اُس پر روزے فرض ہوں گے، لہذا اِس صورت میں والدین کے لیے اُسے فرض روزہ رکھنے سے منع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ اتنا کمزور ہو کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اُس کے بیمار ہوجانے کا غالب گمان ہو یا ڈاکٹر نےاُسے روزہ رکھنے سے منع کیا ہو تو اُس وقت اُس کے والدین اُسے روزہ رکھنے سے منع کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وشرائطہ ثلاثۃ: شرط وجوب، وھو الإسلام والبلوغ والعقل.
(البحر الرائق:2/448)
                                                قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال.) والأصل ھو الإنزال. (والجاریۃ بالاحتلام والحیض والحبل.) ولم یذکر الإنزال صریحا؛ لأنہ قلما یعلم منھا. (فإن لم یوجد فیھما) شيء(فحتی یتم لکل منھما خمس عشرۃ سنۃ، بہ یفتی.) لقصر أعمار أھل زماننا.
(الدر المختار مع رد المحتار:9/226)
                                                قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: (ویفتی بالبلوغ فیھما بخمسۃ عشر سنۃ) عند  أبی یوسف ومحمد، وھذا ظاھر لایحتاج  إلی الشرح.
(البحر الرائق:8/154)
                            
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: والصحیح الذي یخشی أن یمرض بالصوم فھو کالمریض، ھکذا في التبیین..... ثم معرفۃ ذلك باجتھاد المریض والاجتھاد غیر مجرد الوھم، بل ھو غلبۃ ظن عن أمارۃ أو تجربۃ أو بإخبار طبیب مسلم.
(الفتاوی الھندیۃ: 1/227)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

1  ربیع الثانی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب