021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بطور وکالت حاصل کی گئی زکاۃ کی رقم کو نئے پراجیکٹ میں خرچ کرنا
70613وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

ہم ایک وکیشنل سینٹر بنانے جا رہے ہیں۔ اس کا پروپوزل یعنی طریقہ کار ہم نے بنا کر سب دوستوں کو شئیر کر دیا ہے۔ اس کے معاون بلال صاحب ہیں۔ بلال صاحب کہتے ہیں کہ میں اس پراجیکٹ کے لیے بھاری رقم دینا چاہتا ہوں لیکن اس میں عطیات اور زکاۃ دونوں شامل ہیں۔ ہم نے اس وکیشنل سینٹر میں کام کرنےوالی خواتین اور بچیوں سے وکالت نامہ لیا ہے۔ اس وکیشنل سینٹر میں بیوہ خواتین، طلاق یافتہ اور یتیم بچیاں کپڑا سینے اور امبرائڈری  وغیرہ کا ہنر حاصل کریں گی تو اس کام کے لیے مشینوں وغیرہ کی ضرورت ہوگی۔ یہ مشینیں وغیرہ ان عطیات اور زکاۃ سے بعد از وکالت خریدنے کا ارادہ ہے۔

کیا جن لوگوں سے وکیشنل سینٹر بننے سے پہلے وکالت نامہ پر کروا کر وکالت لی گئی  ہے ان کی وکالت اس پراجیکٹ میں معتبر ہوگی؟

اضافہ:

1۔ سائل نے وکالت نامہ ساتھ لف کیا ہے جس میں تفصیلات کے اندراج کے بعد یہ عبارت ہے:

" میں عاقل بالغ اس بات کا اقرار کرتا/ کرتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میں شرعی قاعدہ کی رو سے زکاۃ لینے کا/ کی واقعی مستحق ہوں۔ جب تک میں مستحق زکاۃ ہوں اس وقت تک پاک ایڈ ویلفیر ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اس بات کا وکیل بناتا/ بناتی ہوں کہ ٹرسٹ کی انتظامیہ یا اس کے نمائندے میرے وکیل کی حیثیت سے زکاۃ و صدقات کی رقوم یا اشیاء وصول کریں اور اسے میرے علاج و معالجہ اور طعام و قیام کی ضروریات میں حسب صوابدید خرچ کریں یا دیگر غریبوں اور مستحق افراد کے علاج و معالجہ اور طعام و قیام  اور تعلیم وغیرہ کی ضروریات میں خرچ کریں یا پاک ایڈ ٹرسٹ کی دیگر ضروریات پر خرچ کریں یا پاک ایڈ ٹرسٹ کی ملکیت/ وقف میں دے دیں۔"

2۔ سائل نے بذریعہ واٹس ایپ آڈیو پیغام اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ وکالت نامہ پہلے کا ہے جو لوگوں سے پر کروایا گیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے ساتھ لف کیے گئے وکالت نامے میں چونکہ اس بات کی تصریح ہے کہ پاک ایڈ کی انتظامیہ بطور وکیل رقم وصول کر کے تعلیم وغیرہ کی ضروریات میں خرچ کر سکتی ہے، لہذا جو رقم اس وکالت نامے کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہے اسے مذکورہ بالا پراجیکٹ میں خرچ کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات
۔۔

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 29/ ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب