021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناجائزپرعمل سے بچنےکے عزم کے ساتھ ناجائز شرائط پر معاملہ کرنا/آرمی /فوج کے ادارہ CSD{سی ایس ڈی}سے شرائط کے ساتھ خرایداری کاحکم
70659خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

بعد از سلام عرض ہے کہ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں Armed forces کے لیے ایک ادارہ ہے، جس کا نام CSDہے۔ اس ادارے سے آرمی ،نیوی اور ائیر فورس کے لوگ کوئی بھی چیز،مثلاگاڑی اورموٹر سائیکل وغیرہ قسطوں پرخریدے جاسکتے ہیں۔اس ادارے سے خریداری کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے خریداری کرتے ہوئے ہم کم قیمت پر اشیاء خرید سکتے ہیں،لیکن اس خریداری کی کچھ شرائط ہیں، جودرج ذیل ہیں؟

۱۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس ادارے سے خریدی گئی چیز کی انشورنس کروانا ضروری ہے۔

۲۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے ماہانہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کردی تو اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

۳۔تیسری شرط یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آئندہ قسطوں کی ادائیگی وقت سے پہلے کرنا چاہے تو اس شخص سے کچھ رقم اضافی لی جاتی ہے،جس کو Termination charges کہتے ہیں۔

اب سؤال یہ ہے کہ کیا ان شرائط کے ہوتے ہوئے اس ادارے سے خریداری کرنا جائز ہے؟اگر نہیں تو کیا ان شرائط سے بچنے کی کوئی صورت ہے؟ یا ان کا کوئی جائز متبادل ہوسکتا ہے؟

مثلا اگر کوئی شخص تحریری طور پر ان شرائط سے اتفاق کرنے کے بعد  یہ طے کر لے کہ وہ ان ناجائز شرائط سے بچنے کی کوشش کرے گا، وہ اس طرح کہ پہلی شرط کو پورا کرنے کے لیے انشورنس کے بجائے وہ شخص تکافل کروالے۔ اسی طرح دوسری شرط سے بچنے کے لیے عملی طور پر قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرے گا، اور اس کے لیے عملی اقدام کے طور پر وہ شخص ادارے سے یہ طے کر لے کہ مطلوبہ قسط کی رقم وہ ادارہ براہ راست اس کی تنخواہ سے کاٹ لیا کرے۔ اسی طرح تیسری شرط سےبھی وہ بچتے ہوئے عملی طور پر قسطوں کی ادائیگی وقت سے پہلے نہ کرے، تو کیا یہ جائز ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سؤال میں مذکورہ شرائط کے ساتھ بلاضرورت قسطوں پرخرید وفروخت کامعاملہ کرنا ہی شرعا ناجائز ہے،لہذا اگر ان شرائط کے بغیر ضرورت کی چیز اس ادارے یا یا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے مل سکے توکسی بھی نیت سے ان شرائط سے خرید نے کا معاملہ کرنا جائز نہیں،لیکن اگر  ضرورت کی چیز اس ادارے کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نہ مل سکے یا کسی دوسری جگہ سےاس کے حاصل کرنے میں شدید حرج اور مشقت  پیش آئے یا اس ادارے سے خریدنا ادارتی ضابطہ کے مطابق ضروری ہو تو ایسی صورت میں ان شرائط کے ساتھ معاملہ پر سؤال میں ذکر کردہ  متبادل طریقہ کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہے،البتہ بلاضرورت ایسا معاملہ کرنا جائز نہیں،لیکن اگرناجائز سے بچنے کی نیت سے کوئی اس طرح کا معاملہ کرکے  ناجائز شرائط پر عمل سے بچنے کی کوشش کر لے تو ناجائز عقد ومعاملہ کرنے کے گناہ کا مرتکب تو ہوگا،لیکن خریدی ہوئی چیز کا استعمال جائزہو گا۔

حوالہ جات
قال شیخ الاسلام الشیخ المفتی تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالی:
اما کون العقد مشتملا علی لزوم الفائدۃ عند التاخیر فی السداد، فان مثل ھذہ الشروط موجودۃ الیوم فی کثیر من التعاقدات،مثلا استخدام الکھرباء والتلیفون، والجوال والضرائب الحکومیۃوما الی ذالک، فلا یمکن الیوم استخدام الکھرباء الا بالتوقیع علی العقد الذی یشترط فوائد التاخیر، ولکن بما ان ھذہ الشروط غیر معتبرۃ فی الشرع، فما دام الانسان مطمئنا بانھا لاتطبق عملیا ، وذلک بالتزام السداد فی حینہ، فانہ یمکن ان یتسامح فیھا لعموم البلوی ،قد یستانس فی ذلک ( ولا اقول: یستدل) بحدیث شراء عائشۃ ام المؤمنین لبریرۃ رضی اللہ عنھا بعقد فی شرط لان یکون الولاء للبائع،واجاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشتراط ذلک ،مع کونہ شرطا ممنوعا فی الشرع، لکونہ علی یقین بانہ لایطبق ۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم(الفتاوی العثمانیۃ:ج۳،ص۳۵۷)

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب