021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹوں کےلیے وصیت کرنے کاحکم
71030وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زیدنے اپنی زندگی میں اپنے مکان کی وصیت تین بیٹوں کے نام ایک ایک کمرےکی وصیت کی (مکان میں تین ہی کمرے تھے)،زندگی موت کابھروسہ نہیں لہٰذامیں وصیت کررہاہوں کہ میرےبعداسی کےمطابق یہ گھرتقسیم کرنا۔اب پوچھنایہ ہےکہ بیٹیوں کےنام کوئی وصیت نہیں کی اورجائیدادمیں صرف ایک ہی مکان ہے۔نیزتین بیٹوں میں سے ایک والدصاحب سے پہلےوفات پاچکےتھے،ان کی بیوی اوربچے حیات تھے،دیناان کوچاہ رہےتھے،مگرنام اپنی بہواورپوتوں کےبجائےمرحوم بیٹے ہی کالکھوایا۔اب آنجناشرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس وصیت کاکیاحکم ہے؟مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیےگا۔ہبہ مشاع اوروصیت مشاع کاایک ہی حکم ہے؟

تنقیح سوال :مستفتی سےرابطہ کرنےپرمعلوم ہواکہ موصی زندہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وارث کےلیےوصیت کرنادرست نہیں۔اگرکسی نےکی ہوتودیگرتمام ورثاءکی رضامندی سےہی وہ نافذہوسکتی ہے۔لہٰذابیٹوں کےحق میں یہ وصیت درست اورقابل نفاذنہیں ۔مرحوم بیٹےکی بیوی اوربچوں کےلیےاگرچہ وصیت جائزتھی،مگرآپ کےبیان کےمطابق چونکہ وصیت ان کےنام کےبجائےمرحوم بیٹےکےنام کی ہے،لہٰذایہ وصیت بھی قابل نفاذنہیں ۔زیدکیونکہ ابھی حیات ہےتواسےاول توبیٹیوں کوبھی حصہ دینا چاہیے۔ نیز بہو، یا پوتے،پوتیوں کوحصہ دیناہوتوایک تہائی مال سے ان کےلیےوصیت کرسکتاہے۔یادرہےکہ وصیت میں چونکہ قبضہ شرط نہیں ہےاس لیےمشاع کی وصیت کرنابھی جائزہے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع":337/7
"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث»."
" تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ" 93,94/5:
"(قوله كالقرض والوصية) قال الأتقاني، وكذلك قرض المشاع في الذي يحتمل القسمة صحيح والقرض تبرع والتبرع لا يصح بدون القبض بيانه أنه نص في كتاب المضاربة في رجل دفع إلى رجل ألفا نصفه قرضا ونصفه مضاربة فإنه يصح، وكذلك لو أوصى بثلث داره شائعا يصح ويثبت الملك قبل القبض.والقبض في الوصية ليس بشرط لصحتها."
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "333/7:
"وعلى هذا يخرج ما إذا أوصى بثلث ماله، أو ربعه، وقد ذكر قدرا من ماله مشاعا، أو معينا أن قدر ما يستحقه الموصى له من مال هو: ماله الذي عند الموت لا ما كان عند الوصية حتى لو أوصى بثلث ماله، وماله يوم أوصى ثلاثة آلاف، ويوم مات ثلثمائة لا يستحق الموصى له إلا مائة، ولو لم يكن له مال يوم أوصى، ثم اكتسب مالا، ثم مات فله ثلث المال يوم مات.
"الأشباہ والنظائر"ص116:
"لأن المقاصد إذا لم يدل عليها اللفظ لا يعتبر."

ذیشان گل بن انارگل

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

26جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ذیشان گل بن انار گل

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب