021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بامرِمجبوری مصلی میں جمعہ قائم کرنا
81810نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک دس منزلہ ٹاورمین پہلی منزل پر جائےنماز(مصلی) بنایا گیاہے اوراس میں پچھلے دو سال سے نماز باجماعت اد کی جارہی ہے،اب اس ٹاورکے یک کونہ کے متصل زمین پر ایک گھر کو بریلوی مسلک والوں نے مسجد بنالیا اوراس میں نماز جمعہ بھی شروع کرلیا اوراس کے بالکل سامنے ٹاورکے دوسرے کونہ کے متصل جماعت اسلامی والوں نے باقاعدہ ایک مسجد بنالی ہے اورنماز جمعہ بھی شروع کرلی ہے۔

اب درج ذیل دوباتیں پوچھنامقصود ہے۔

١۔ ٹاورکے (مصلی) میں نماز ادا کرنے والے مقتدیوں کی رائے یہ ہے کہ اس مصلی میں نماز جمعہ شروع کی جائے(مصلی)  کی مقتدیوں کی تعدادفی الحال کم ازکم تیس،چالیس تک ہوجاتی ہے،کیاحکم ہےشرعی اعتبارسے یہاں جمعہ شروع کرنے کا ؟

۲۔دوسری بات یہ ہے کہ کیا اس مصلی کو بحالات موجودہ برقراررکھاجائے یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرقرب وجوار میں صحیح العقیدہ اہلِ حق کی کوئی مسجد ہوتو پھر مذکورہ مصلی میں جمعہ شروع نہ کیاجائے اورمقتدیوں کوقریب میں موجود اہل حق کی مسجد جانے کا مشورہ دیاجائے کیونکہ ایک تو مسجد میں جمعہ پڑھنے کا ثواب زیادہ ہےاوردوسرایہ کہ جمعہ شعائر اسلام میں سے ہےمسجد میں پڑھنے سے مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار زیادہ ہوگا۔

تاہم اگرقرب وجوارمیں اہل حق کی کوئی مسجد نہ ہوں بلکہ سوال میں مذکورہ مساجد ہوں تو پھر مذکورہ مصلی میں جمعہ شروع کردینا بہترہوگا،اس لیے کہ مستقل طورپر عوام کا مذکورہ جگہوں میں جمعہ پڑھنے اوربیانات سننے سے فسادِ عقیدہ کا اندیشہ ہے۔

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کی درستی کے لیے  مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے،جمعہ کی دیگرشرائط ہوں تو مصلے میں بھی جمعہ کی نماز ادا ہوجاتی ہے،لہذا مذکورہ صورت میں قریب میں اہل حق کی مسجد نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ مصلی  میں جمعہ

 پڑھاجاسکتاہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ علیہ:
 وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها.(بدائع الصنائع:1/259)
قال الشیخ ابراھیم الحلبي :
وفي الفتاوی الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر.(حلبئ کبیر:551)
الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 148)
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه
فتوى أكثر الفقهاء.مجتبى لظهور التواني في الاحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدرعلى إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صارمجمعا عليه، فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ........(و) الثالث: (وقت الظهر .......(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.(و) الخامس: (كونها قبلها) لان شرط الشئ سابق عليه ..........(و) السادس: (الجماعة) .........(و) السابع: (الاذن العام) من الامام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة، لان الاذن العام مقرر لاهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الانهر معزيا لشرح عيون المذاهب،قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح، فليحفظ
البحر الرائق - (1 / 370)
وكره إمامة العبد والأعرابی والفاسق والمبتدع ...وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لا تكون بدعته تكفره فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لا تجوز... قال الرملي ذكر الحلبي في شرح منية المصلي أن كراهة تقديم الفاسق والمبتدع كراهة التحريم ۔
الفتاوى الهندية - (1 / 84)
وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح هكذا في البدائع.
الدر المختار - (1 / 561)
و في العلائية ويكره امامة عبد و مبتدع... لايكفر بها حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم إلا الخطابية.
وفی فتاوی دارالعلوم  دیوبندعلی الشبکة:
مودودی صاحب چند عقائد اور مسائل میں جادہٴ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں لہذا جہاں تک ہوسکے ان کے ماننے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے احتیاط برتی جائے([1]) (فتوی: 808=869/ ب)
 

https://darulifta-deoband.com/home/ur/deviant-sects/6198([1])

سیدحکیم شاہ عفی عن

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 24/1/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے