021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولادکوہبہ کردہ زیوراورجہیز ان کی اجازت کے بغیراستعمال کرنا اوربیچنا
82268ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

       جب میں اپنی فیملی  کے ساتھ سسرال سے میکے شفٹ ہوئی تو میرے والدین نے میرے وہ زیورات جو انہوں نےمجھے شادی کے موقع پر دیے تھے اپنے پاس یہ کہہ کر رکھ لیے کہ جب تمہیں چاہیے ہوں تب لے لینا،وقت گزرتارہااس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ میں ان سے لیتی اورایسے حالات بھی نہ تھے کہ زیورات پہن کر کسی  جگہ جاسکے ،پچھلے سال حالات مذکورہ کی وجہ سے جب مجھے اپنے زیورات کی ضرورت پڑی اورمیں نے اپنے والدین سے تقاضہ کیا تو انہوں نے زیورات دینے سے صاف انکارکردیا ۔گزشتہ سال والدین کے ساتھے رہتے ہوئے اس بات پر ناچاقی ہوگئی  کہ میرا چھوٹا بھائی شیخ سرفراز بقرة  عیدکے موقع پر دو بکریاں اوران کے بچے پالنے کی غرض سے لے آئے،متبادل جگہ ہونے کے باوجود چھت کا جوحصہ ہمارے استعمال میں مستقل رہتاتھا  اسی حصے میں بکریاں باندھی اورکبھی کبھی انہیں کھلابھی چھوڑ دیتاتھا جس کی وجہ سے میں اورمیرے بچے اذیت کا شکار ہوگئے تھے،وہ چھت کی جگہ صاف بھی نہیں  کرتاتھا  اور نہ ہی متبادل جگہ پر باندھتا تھا،کئی بار والدین سے کہا، لیکن انہوں نے کوئی اقدام نہ کیا،ایک دن آپس میں زیادہ نا اتفاقی ہوگئی جس کے بعد میرے شوہرنے چھت کے دروازے کو تالا لگا دیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں بھائی اپنی بہن اوراس کے بچوں کو نہ مارے، کیونکہ سرفراز کومیرے والدین کی طرف سے خاصی چھوٹ حاصل تھی ،جب میرے شوہرگھر آئے تو ان  کی اورسرفراز کی خوب زبانی کلامی لڑائی ہوئی جب معاملہ زیادہ بگڑگیا تو میرے سسرال سے میری ساس( جوکہ رشتے میں سگی تائی امی ہیں) جیٹھ ،نند اورماموں اس مسئلے کو حل کرنے آگئے، لیکن میرے والدین نے ان کی ایک نہ سنی، بلکہ ان سے بھی خوب بدتمیزی کی(جبکہ میری تائی امی میرے والد کی بیوہ بھاوج ہے)ان تمام واقعات کی آڈیوریکارڈنگ بھی موجود ہے تاکہ کوئی بھی کسی کو نہ جھٹلاسکے ،میں نے اپنے سسرال والوں کی موجودگی میں اپنے والد سے کہا کہ اب چھت پر بکریاں نہیں باندھنے دونگی، اس پر میرے والد نے کہا کہ بکریاں تو  اب چھٹ  پر ہی بندھیگی اورمیں باندھو نگا مجھے کون روکے گا ،بحائے مسئلہ کو حل کرنے کے مزیدبگاڑدیااوربکریاں لاکر سب کے سامنے چھت پر باندھ دیں اورچھت کا دروازہ بھی توڑدیا۔

بہرحال چند دنوں کے بعد میری پھر اپنے بھائی سرفراز سے منہ ماری ہوئی تو سب سے پہلے اس نے میرے بچوں کی موجودگی میں میرے منہ پر وائپرمارا تو میں نےاس کے منہ پر تھپڑ ماردیا،  اس کے بعد اس نے جنگلیوں کی طرح مجھے مارا ،میرے پیٹ میں لات ماری اورمیرا ہاتھ موڑکر مکے بھی مارے جس پر میرے بیٹے محمد شیخ نے اسے روکا اورکہا کہ میری  امی کو چھوڑو تو میرے بھائی نے اس کے سینے پر بھی کہنی  ماری کہ میر ابچہ تڑپ گیا، میرے والدین نیچے ہی رہتے ہیں ان کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہوا، پھربھی وہ خاموش رہے ،بلکہ میرے والد نےمجھے صاف صاف کہہ دیاکہ یہ گھر سرفراز کا ہے، تمہارا نہیں ہے، اگر یہاں رہنا ہے تو اسی طرح رہتی ہوورنہ اپنا انتظام کرلو، تقریباً  دومہینے کے اندرمیرے شوہر نے مجھے کرائے کا گھر کرکے دیا اورمیں نے موجودہ گھر تمام جہیزکے سازوسامان لیے بغیر چھوڑدیا ،یہاں تک کہ ایک ماچس کی تھیلی بھی اس گھر سے نہیں لی، اب مسئلہ یہ ہے کہ:

١۔ کیا میرے زیورات جو مجھے شادی کے موقع پروالدین نے دیےتھے اس پر میرے والدین کا حق ہے ؟مجھے ان کی ضرورت ہے طلب کرنے پر بھی میرے والدین  مجھے نہیں دے رہے ہیں جبکہ الحمدللہ وہ امیربھی ہیں۔

۲۔ وہ ساماں جو رشتے داروں نے جہیز کی صورت میں مجھے دیا تھا اس کو استعمال کرنایا بیچنا میرے والدین کےلیے شرعی طورپر درست ہے ؟ کیا وہ گناہ گارنہیں ہونگے ؟جبکہ میرے علم میں بھی نہیں ہے اورمیری اجازت بھی نہیں ہے۔

 یادرہے کہ والدین کا گھر چھوڑے ہوئےمجھے ایک سال کا عرصہ ہوچکاہے،اس عرصہ میں والدین نے کوئی خیر خبر نہیں لی اورناہی کبھی فون کیا ۔

۲۔کیامیرے والدین کی ذمہ داری  نہیں کہ میری ساس سے اپنی کی ہوئی بدتمیزی پر معافی مانگیں اوران کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں جبکہ وہ خاندان کی بھی بڑی ہیں؟

۳۔ مذکورہ تفصیل میں میرے چھوٹے بھائی کا سلوک بالکل واضح ہے، اس ناروا سلوک کے بارے میں شریعت کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس کی ان نازیباحرکتوں پرمیرے والدین کی بندستورخاموشی ہیں۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔واضح رہے کہ ذی رحم محرم کو ہبہ کیا جائے توہبہ سے رجوع نہیں ہوسکتا،لہذا مسئولہ صورت میں جب والدین نے زیورآپ کو ہبہ  کردیا تھااورقبضہ میں بھی دیدیاتھا  اورپھر امانت کے طوررکھ لیا تھا تو پھر ان کے لیے اب زیورواپس  دینے سے انکار کرنا جائزنہیں ہے،اسی طرح آپ کے جہیز کا سامان بھی آپ کی ملکیت ہے،والدین کابغیر اجازت کے اس کو استعمال اوربیچنا ہرگز جائزنہیں ہے،ان پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے توبہ اوراستغفار کریں اوربیٹی کا زیوراورجہیزکاسامان واپس کردیں،ورنہ میں آخرت میں رسوائی ہوگی ۔

۲۔پہلے تویہ سمجھیں کہ اگریہ گھرآپ کے والد یا بھائی کاتھا،آپ کا نہیں تھا تو پھر ان کےلیے چھت پر بکریاں باندھناجائزتھا اورآپ کےلیے منع کرناصحیح نہیں تھا،البتہ بکریوں کواس طرح کھلاچھوڑناکہ چھت کا دروازہ بھی کھلارہےاوربکریاں نیچے آئیں جس سے آپ اورآپ کے بچوں کو تکلیف ہوجائزنہیں تھا،بہرحال حالات خراب ہونے پر جب آپ کی ساس،جیٹھ ،ننداورماموں مصالحت کےلیے آپ کے والدین کےگھرآئیں تو آپ والدین کےلیےہرگزجائزنہیں تھاکہ ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے،ان کایہ  طرزِ عمل شرعی لحاظ سے درست نہیں تھا،مہمان کے اکرام کا شریعت میں حکم ہے اوراس کو ایمان کی علامت قراردیاگیاہے اور بالخصوص جبکہ وہ مصالحت کےلےآئےتھے کوئی ذاتی غرض نہیں تھا تو عرف میں بھی  ایسے مہمان سے اچھا برتاؤ رکھاجاتاہے،لہذا آپ کے والدین کو چاہیے کہ آپ کی ساس اوردیگرمہمانوں سے معذرت کریں،اورآئندہ کےلیے اچھا سلوک رکھیں ،معافی مانگنا خصوصا جبکہ بڑے سے ہوشرعاًقابلِ تعریف عمل ہے اس سے شرمانانہیں چاہیے۔

۳۔آپ کے بھائی کا آپ اورآپ کے شوہرکےساتھ مذکورہ بالاسلوک خصوصاً جبکہ آپ ان کے رشتہ داری میں آنے کے ساتھ ساتھ پڑوس  میں بھی آتے ہیں جائزنہیں تھا،ان کو صبرسے کام لینا چاہیے تھااورافہام اورتفہیم سے مذکوہ مسئلہ بڑوں کو درمیان میں ڈالکرحل کرلیناچاہیے تھا،ان کوچاہیے کہ آپ سے اورآپ کی بہن سے معذرت کریں اوراچھاسلوک رکھیں۔

آپ میان بیوی کو بھی چاہیے کہ ان سے قطعِ تعلقی نہ کریں اورسلام دعاء اورآناجاناجاری رکھیں،یہ صلہ رحمی میں آتاہے جس میں شرعاً بہت بڑا ثواب ہے۔

حوالہ جات
       وفی الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري - (ج 3 / ص 425)
( وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها ) هذا إذا كان قد سلمها إليه أما قبل ذلك فله الرجوع.
المبسوط لشمس الدين السرسخي - (ج 5 / ص 95)
عن ابراهيم عن عمر رضى الله عنه قال من وهب لذى رحم محرم هبة فقبضها فليس له أن يرجع فيها. وذكر بعد هذا عن عطاء ومجاهد عن عمررضي الله عنه قال من وهب هبة لذى رحم محرم فقبضها فليس له أن يرجع
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: ما بال أحدکم ینحل ولدہ نحلاً لا یحوزھا ولا یقسمُہا ویقول: إن متُّ فہولہ، وإن مات رجعتْ إلي وأیم اللّٰہ لا ینحل أحدکم ولدہ نحلاً لا یحوزھا ولا یقسمہا، فیموت إلا جعلتہا میراثاً لورثتہ.
وفی الفتاویٰ الھندیة:
"أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع (منها) هلاك الموهوب ... (ومنها) خروج الموهوب عن ملك الموهوب له ... (ومنها) موت الواهب، . . (ومنها) الزيادة في الموهوب زيادة متصلة . . . (ومنها) أن يتغير الموهوب .. (ومنها الزوجية) (ومنها القرابة المحرمية)". (الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ما لا يمنع، ج: 4، ص: 385، ط: ماجدية)
وفی  صحیح مسلم (4689)
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ( مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ ، وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّاوَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ) .
سنن الترمذي ت بشار (4/ 191)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رحم الله عبدا كانت لأخيه عنده مظلمة في عرض أو مال، فجاءه فاستحله قبل أن يؤخذ وليس ثم دينار ولا درهم، فإن كانت له حسنات أخذ من حسناته، وإن لم تكن له حسنات حملوه عليه من سيئاتهم.
مشكاة المصابيح - (2 / 1224)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت» . وفي رواية: بدل «الجار» ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليصل رحمه "

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 10/6/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے