021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پانچ سو سالہ قدیم قبرستان پر تعمیر اور کاشت کا حکم
81929وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے  ہیں علماءِ كرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

  ایک قبرستان جو تقریباً پانچ سو سالہ قدیم ہے اوراس کے کھنڈرات باقی نہیں رہے ،ہم نے اپنے جد امجدسے یہی سنا کہ یہ قبرستان اسی حالت میں میں نے دیکھا تھا۔پوچھنا یہ ہے کہ

١ کیا شریعتِ مطہرہ میں اس پر کسی قسم کی تعمیر یا کاشت کی جاسکتی ہے یا اس کو کسی اورمقاصد کےلیے استعمال کیاجاسکتاہے ؟

نوٹ: یہ معلوم نہیں کہ یہ وقف شدہ ہے یانہیں کیونکہ بہت پرانا ہے، جدِ امجدنے یہ کہا تھا کہ اس کو ایسے ہی دیکھاہے اوریہ جگہ ہماری ہے اوراس میں ہمارے سامنے اور جد امجد کے سامنے کوئی بھی میت دفن نہیں کی گئی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

          واضح رہے کہ اگر قبرستان موقوفہ ہو، کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس کی زمین پر کسی کے لیے ملکیتی تصرف جیسےکہ تعمیر،زراعت وغیرہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، بلکہ جس مقصد کے لیے وہ وقف  ہوتاہے اسی میں استعمال کرنا  اس کو لازم ہوتا ہے۔

لہذامذکورہ مقبرہ میں  اگر قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اَموات مٹی بن چکی ہوں تو اس میں جدید اَموات کی تدفین کی جائے ،مگر اس کو ذاتی ملکیت میں لینا کسی صورت جائز نہیں ہے،باقی اگراس قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہوتو بھی جب قدیم زمانے سےیہ بطورقبرستان مشہورہے تو اس کے وقف ہونے کےلیے یہی  قرینہ کافی  ہے،ایک فقہی اصول ہے قدیم کو اپنی حالت پر برقراررکھاجائے گا،لہذا اس کو اپنی حالت پر قبرستان ہی رہنے دیاجائے اوراس میں جدیداموات کی تدفین شروع کی جائے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (19 / 291):
"وَسُئِلَ هُوَ أَيْضًا عَنْ الْمَقْبَرَةِ فِي الْقُرَى إذَا انْدَرَسَتْ وَلَمْ يَبْقَ فِيهَا أَثَرَ الْمَوْتَى لَا الْعَظْمُ وَلَا غَيْرُهُ هَلْ يَجُوزُ زَرْعُهَا وَاسْتِغْلَالُهَا؟ قَالَ : لَا، وَلَهَا حُكْمُ الْمَقْبَرَةِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ".
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (2 / 233):
" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ  قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اهـ قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء إذا لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول تراباً، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبول السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل".
قال العلامۃ ابن نجیم المصریؒ:
ولو بلی المیت وصار ترابًا جاز دفن غیرہ وزرعہ والبناء علیہ۔ (البحرالرائق:ج؍۲،ص؍۱۹۵، کتاب المزارعۃ)    ومثلہء فی الھندیۃ:ج؍۱،ص؍۱۶۷، کتاب المزارعۃ.
کفایت المفتی میں ہے:
’’مسجد کی طرح قبرستان میں بھی عام اموات کا بلاروک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لیے کافی ہے‘‘۔
(7/ 212, کتاب الوقف ،چھٹا باب،ط:دارالاشاعت کراچی)
امدادالفتاوی میں ہے:
’’الجواب: عام قبرستان وقف ہوتا ہے اور سوا اللہ جل شانہ کے کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا اور جب وقف ہوا تو متولی بحیثیت قبضہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس میں کوئی تصرف مالکانہ بیع و شراء وغیرہ نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘الخ(2/ 570, کتاب الوقف،ط:دارالعلوم کراچی)
قال مولانا ظفر أحمد العثمانی:
جب یقین یا ظن غالب ہوجائے کہ جسم خاک خوردہ ہوگیا ہوگا اس کے بعد قبر پر زراعت جائز ہے۔ بشرطیکہ موضع قبر زارع کا مملوک ہو، موقوف نہ ہو۔ اگر موقوف ہوگا تو زراعت جائز نہ ہوگی  بلکہ  وہ  زمین   قبر کے  کام  لائی  جائے گی ۔ (امداد  الاحکام   ج :3   ص: 542 ،  غیر  موافق للمطبوع) (وراجع ایضافتاویٰ حقانیہ :ج؍۶،ص؍۴۱۹)
القواعد الفقهية بين الأصالة والتوجيه (6/ 3، بترقيم الشاملة آليا)
إنَّ من القواعد الفقهية قاعدة: الأصل بقاء ما كان على ما كان، أو كما قيل: القديم يترك على قدمه.
والمعنى العام لهذه القاعدة العظيمة: أن ما ثبت بزمان يحكم ببقائه ما لم يوجد بديل على خلافه، يعني: إذا ثبت بزمان في وقت معين أمر معين، فهذا لا يمكن أن يتغير عما هو عليه إلا إذا طرأ عليه طارئ أو دل الدليل، وهذا يسمى عند الأصوليين استصحاب الأصل، وهناك معترك دام بينهم، هل استصحاب الأصل يكون دليلاً أم لا؟ والصحيح الراجح: أنه دليل.
إن هذه القاعدة -أي: أن الأصل بقاء ما كان على ما كان- يتفرع منها أمور وأصول كثيرة، إذا ضبطها المرء فلا يحتاج إلى دليل معها في فعله، وكذا لا يحتاج إلى دليل في عمله بها.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/5/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے