70992 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے کہے تو میری بیوی نہیں لست لی بامرأۃ اس سے کونسی طلاق واقع ہوگی ؟ فقہاء کرام کی آراء اس بارے میں مختلف ہیں ، شامی،بحرالرائق ،نہر الفائق اور احسن الفتاوی وغیرہ میں رجعی لکھا ہے اور مبسوط سرخسی ،دررالحکام ،فتاوی دارالعلوم دیوبند ،رحیمیہ اور فتاوی مفتی محمود میں بائن لکھا ہے ۔ اس بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ مسئلہ میں طلاق رجعی واقع ہوگی ،کیونکہ بعض فقہاء کرام رحمۃاللہ علیہم نے ان الفاظ کو کنایات میں شمار کرکے تصریح نہیں کی کہ کونسی طلاق واقع ہوگی ،لیکن اکثر فقہائے کرام نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد طلاق رجعی ہے، اس لیے ہمارے ہاں سےاحسن الفتاوی کے مطابق فتوی طلاق رجعی کا دیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قولہ: (طلاق إن نواہ ):لأن الجملۃ تصلح لإنشاء الطلاق کما تصلح لإنکارہ ،فیتعین الأول بالنیۃ ، وقید بالنیۃ ؛لأنہ لا یقع بدونھا اتفاقا ؛لکونہ من الکنایات.وأشار بقولہ "طلاق" إلی أن الواقع بھذہ الکنایۃ ،رجعی .(ردالمحتار:4/507)
قال العلامۃ سراج الدین رحمہ اللہ:وتطلق رجعیا بلست لی امرأۃ أو کذا بقولہ :لست لک بزوج،أو ماأنا لک بزوج ،إن نوی طلاقا عند الإمام .(النھر الفائق:2/362)
قال العلامۃ نظام الدین رحمہ اللہ:ولو قال لامرأتہ :لست لی بامرأۃ ،أو قال لھا :ما أنا بزوجک ،أو سئل فقیل لہ : ھل لک امرأۃ؟ فقال : لا ،فإن قال :أردت بہ الکذب یصدق فی الرضا والغضب جمیعا ،ولا یقع الطلاق ،وإن قال : نویت الطلاق یقع فی قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ .
(الفتاوی الھندیۃ:1/375)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ :کل کنایۃ کان فیھا ذکر الطلاق ، کانت داخلۃ فی کلامہ ،ویقع بھا الرجعی بالأولی ،کقولہ : أنا بریئ من طلاقک ..... لست لی بامرأۃ ، وما أنا لک بزوج ، کلست لک بزوج وما أنت لی بامرأۃ ،بخلاف ما لو قال :أنا بریئ من نکاحک ،فإنہ لا یقع.
(البحر الرائق : 3/521)
قال العلامۃ السغدی رحمہ اللہ:وقسم منھا یصدق الرجل فیہ علی أی وجہ کان ،إن کان فی حال الرضا ، أو فی حال الغضب ، أو علی تقدمۃ ذکر الطلاق ، وھو قولہ: خلعتک ....أو لست لی بامرأۃ ، أو لست لی بزوج ، فکل ھذہ الألفاظ یصدق الرجل فیھا . وقال : و جمیع الألفاظ المکنیۃ فی الرجعۃ إن نوی ثلاثا ، أو ثنتین ، فلا یقع إلا واحدۃ ، وإن نوی عددا ،أو طلاقا ،فھی واحدۃ رجعیۃ،وإن لم ینو شیئا فلیس بشیئ. (النتف فی الفتاوی:1/328)
سردارحسین
دارالافتاء،جامعۃ الرشید ،کراچی
26/جمادالاولی/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سردارحسین بن فاتح رحمان | مفتیان | ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب |