021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کام نہ ہونے کی صورت میں مزدوری کا حکم
70982جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

گاڑی مثلاً موٹر سائیکل خراب ہوئی اور کاریگر کو سروس کے لیے دی،لیکن گاڑی درست نہ ہوئی تو کاریگری کی اجرت لازم ہوگی یا نہیں؟

نیز اگر اسپئیرپارٹس موٹرسائیکل کے مالک کے ہوں تو ان پارٹس کا نقصان کس پر ہوگا؟

تنقیح:

سائل فون پر اس سوال کی تنقیح سے معلوم ہوا کہ مکینک سے ٹیوننگ بھی کروائی اور ساڑھے تین سو روپے کے پارٹس بھی لگوائے،مکینک کے کام کے بعد بائک ٹھیک ہوگئی تھی،لیکن کچھ دیر چلانے کے بعد دوبارہ خراب ہوگئی،جس کی وجہ سے دوسرے مکینک کو دکھایا تو وہ بولا کہ ٹیوننگ ٹھیک نہیں کی گئی اور مزید بھی کچھ خرابی نکل آئی جس کے حوالے سے کنفرم نہیں کہ ٹیوننگ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی یا کسی اور وجہ سے تو اس صورت میں پہلے والے مکینک سے صرف ٹیوننگ کی مزدوری واپس لی جائے گی یا جو پارٹس اس نے لگائے ہیں اس کا  اور اضافی پیدا ہونے والی خرابی کا تاوان بھی اس سے لیا جائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

موٹر سائیکل کا مکینک اجیر مشترک ہے اور اجیر مشترک کو اجرت تب ملتی ہے جب وہ اپنے ذمے لیا ہوا کام مکمل کرلے،لہذا مذکورہ صورت میں اگر مکینک نے حقیقت میں ٹیوننگ ایسی کی جس سے ٹیوننگ کروانے کا مقصد حاصل نہیں ہوا تو اس سے ٹیوننگ کی مزدوری واپس لی جاسکتی ہے۔

لیکن جو پارٹس اس نے موٹر سائیکل میں لگائےاس کا اور اضافی پیدا ہونے والی خرابی کا  تاوان اس سے نہیں لیا جاسکتا،کیونکہ پارٹس  تو اس نے  آپ کی موٹر سائیکل میں لگادئیے  اور اضافی پیدا ہونے والی خرابی کے حوالے یہ یقین نہیں کہ وہ پہلے والے مکینک کے کام کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 64):
" (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله حتى يعمل) ؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجية؛ كما إذا عجل له الأجر أو شرط تعجيله كما في السعدية".
"الدر المختار " (6/ 65):
"(ولا يضمن ما هلك في يده وإن شرط عليه الضمان) ؛ لأن شرط الضمان في الأمانة باطل كالمودع (وبه يفتى) كما في عامة المعتبرات، وبه جزم أصحاب المتون فكان هو المذهب خلافا للأشباه  وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة،
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ ": (قوله ولا يضمن إلخ) اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهما مطلقا. وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة مطلقا.....
 (قوله وأفتى المتأخرون بالصلح) أي عملا بالقولين ومعناه عمل في كل نصف بقول حيث حط النصف وأوجب النصف بزازية. قال في شرح الملتقى. قال الزاهدي: على هذا أدركت مشايخنا بخوارزم وأقره القهستاني اهـ. وفي جامع الفصولين منهم شمس الأئمة والأوزجندي وأئمة فرغانة".
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 705)
 وخلاصة الكلام أن هلاك المستأجر فيه في يد الأجير المشترك يقع على أربعة أوجه:
1 - بفعل الأجير الذي يقع بتعديه
2 - بفعل الأجير الذي يقع بدون تعديه وفي هاتين الصورتين يلزم الضمان.
3 - بالشيء الذي لم يكن بفعل الأجير ويقع بشيء لا يمكن الاحتراز منه. وفي هذه الصورة لا يلزم ضمان.
4 - بالشيء الذي يمكن الاحتراز منه كالغصب والسرقة ما ليس من فعل الأجير وفي هذه الصورة لا يلزم الضمان عند الإمام الأعظم مطلقا سواء أكان الأجير مصلحا أم لا ويلزم الضمان عند الإمامين مطلقا.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب