021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فوت ہونے والے پولیس کے بچوں کے لیے حکومت کی طرف سےبینک میں رکھی گئی رقم پر لگنے والےسود کاحکم
81612سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

اگرپولیس ملازم دورانِ ڈیوٹی فوت ہوجائے تو اس کی بیوی اوربچوں کو محکمے کی طرف سے شہداء پیکچ کی مد میں کچھ رقم جاری کی جاتی ہے،لیکن جب تک اس کے یتیم بچے اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچے اس وقت تک ان کے اکاؤنٹ سے یہ رقم نہ بچوں کی والدہ یعنی (پولیس والے کی بیوی) نکلواسکتی ہے اورنہ ہی وہ بچے خود نکلواسکتے،لیکن ان بچوں کے اٹھارہ سال کی عمر پہنچنے تک بینک کی طرف سے ان پیسوں پر کچھ منافع لگتاہے رہتاہے اوریہ منافع بند کروانا نہ ان بچوں کی والدہ کے اختیارمیں ہوتا ہے اورنہ ہی ان بچوں کے اختیار میں ہوتاہے،تواب پوچھنایہ ہے کہ

 کیا یہ منافع والے پیسے سود کے زمرے میں آئینگے؟

اگریہ سود ہے تو کیا ان منافع کے پیسوں سے اگر کوئی چیزخریدی تو تو اس کا کیاحکم ہوگا، جبکہ اس شیء کی خریداری میں صرف ایک حصہ منافع والے پیسوں کا خرچ کیاگیاہواورباقی تین حصے دوسرے حلال پیسوں سے ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ فنڈ محکمے کی طرف سے مرحوم ملازم کے ورثہ کے لیے تبرع و انعام ہے اگراس فنڈ کو سودی اکاؤنٹ میں  جمع کرنےیا نہ کرنےکا ملازم کے کسی نمائندہ  کو اختیار حاصل ہو تو ایسی صورت میں تو اضافی رقم  لیناشبہ ربوا کی وجہ سے جائز نہ ہوگا ،لیکن اگر ملازم کےبیوی،بچوں اورکسی نمائندہ کواس پراختیارنہ ہو،محکمہ خود ہی جمع کراتاہوتو  پھریہ نفع مرحوم پولیس کے ورثہ کےلیےلینا جائزہوگا،اس لیےکہ ملازم  کے کسی ئمائندہ یا وارث نے اپنی رضامندی سے یہ رقم سودی اکاؤنٹ میں  جمع نہیں کرائی، بلکہ ادارے نے جمع کرائی ہے،لہذا ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم کےورثہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں،کیونکہ قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم ملازم کے ورثہ کی  ملکیت اورقبضہ میں بھی نہیں آئی؛ لہٰذا ن کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا، البتہ اگر کوئی احتیاطاً یہ رقم استعمال نہ کرے تو یہ تقوے کی بات ہوگی۔

مذکورہ منافع کے پیسوں سے خریدی جانے والی چیزبہرحال حلال ہوگی،اس لیےاس کی خریدای میں اکثررقم تو ویسے بھی حلال استعمال ہوئی ہے اورجو ٹھوڑی مقدارمنافع کی استعمال ہوئی ہے اس میں بھی سود نہیں ہے، البتہ اس کے صرف شبہ سود ہونے کا احتمال ہے اوریہ شبہ بھی یقینی نہیں، لہذا خریدی گئی چیز حلال ہے۔البتہ اگرپھر بھی کوئی احتیاطاً شبہ والی رقم کے بقدررقم کا صدقہ کرنا چاہے یہ  اس کی طرف تقوے کی بات ہوگی۔

حوالہ جات
قال الله تبارك وتعالى:
{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ
مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ  [البقرة : 275]
صحيح مسلم - (باب لعن اكل الرباوموكله)
 عن جابر قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء
عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الحلال بين، والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات: كراع يرعى حول الحمى، يوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا إن حمى الله في أرضه محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة: إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب ". (الصحيح البخاري ،باب فضل استبرا لدينه، رقم الحدیث: 52، ج:1، ص: 70)
والنقدية أوجبت فضلا في المالية فتتحقق شبهة الربا وهي مانعة كالحقيقة (الهداية،كتاب البيوع، باب الربا، ج:5، ص:178)
(قوله وعلله إلخ) علله الحانوتي بالتباعد عن شبهة الربا، لأنها في باب الربا ملحقة بالحقيقة (ردالمحتار على الدرالمختار،كتاب الفرائض ،ج:6، ص: 757)
"القاعدة الثانية من النوع الثاني: إذا اجتمع عند أحد مال حرام و حلال فالعبرة للغالب ما لم يتبين". ( الأشباہ و النظائر ١/ ١٤٧)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١۴/۴/۱۴۴۵ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے