81506 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک شخص محمدیوسف فوت ہوا ،موت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
بیوی(ذلیخا)،ایک بیٹا(عارف)اورتین بیٹیاں(روبینا،عذرا،سلمہ)
اس کے بعد مرحومہ(روبینا) فوت ہوئی اورموت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
شوہر(امجدعلی ) دوبیٹے (شارک اوراحمد)اورایک بیٹی (محا)
اس کے بعدمرحومہ (محا) کاانتقال ہوا جوکہ کنواری تھی اورموت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
والد (امجدعلی ) اوردوبھائی (شارک اوراحمد)
اس کے بعدمرحوم(امحمدعلی) کا انتقال ہوا اورموت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
دوبیٹے (شارک اوراحمد)
برائےکرم یہ وضاحت فرمائیں کہ ان سب میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں چونکہ چارلوگ یکے بعددیگرےفوت ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کے وارث ہیں، لہذاموجودہ صورت میں مرحومین کے مال میں سے جن جن ورثاء کوجو جوحصہ ملے گا،آسانی کے لیے ذیل میں اس کاجدول ملاحظہ ہو۔
کل مال :100
دیگرتفصیل |
فیصدی حصص |
زندہ ورثہ |
نمبر شمار |
شوہرمحمدیوسف سے |
12.5 |
ذلیخا |
1 |
والد محمدیوسف سے |
35 |
عارف |
2 |
والد محمدیوسف سے |
17.5 |
عذرا |
3 |
شہ والد محمدیوسف سے |
17.5 |
سلمہ |
4 |
والدہ روبیناسے/ والد امجدعلی سے |
8.75 |
شارک |
5 |
والدہ روبیناسے/ والدامجدعلی |
8.75 |
احمد |
|
|
100 |
ٹوٹل: |
واضح رہے کہ یکے بعد دیگرے ورثہ کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری میت سے آخر تک کے اموات کوپہلی میت سے بھی ملتاہے اورعام طورپر فوت ہونے کے وقت ان کی ذاتی ملکیت میں بھی کچھ نہ کچھ مال ہوتاہے تو جب ان کا مال تقسیم ہوتوپہلی میت سے ملنے والے مال کے ساتھ اس کے دیگرذاتی اموال کو بھی ملایاجاتاہے جو بوقت موت ان کی ملکیت میں ہوتاہے لہذا مسئولہ صورت میں دوسری میت روبینا سے لیکر آخری میت امجدعلی تک جتنے ورثہ فوت ہوئےہیں ، ان کی میراث تقسیم کرتے وقت دونوں مالوں(پہلی میت سے ملنے والااوراپنا) کو جمع کرلیا جائےگا،اورپھر کل مال جتنا بھی ہوجائے اس کوورثہ میں تقسیم کیاجائے گا، تقسیم کا طریقہ کار وہی ہوگاجو اوپر مذکورہوا ۔ مثال کے طورپرچوتھی روبیناکے فوت ہونے کے وقت اس کے پاس دو قسم کے مال تھے: نمبر ایک :پہلی میت’’ محمدیوسف‘‘سےنمبر دو: جو اس کے علاوہ ان کا ذاتی مال بوقت موت ان کی ملکیت میں تھا ان دونوں قسم کے مالوں کو 100حصوں میں تقسیم کرکے ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔
حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..." (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب." (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ .........وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... } [النساء: 12, 11]
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
5/4/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |