021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوندکےظلم،زیادتی اورنفقہ کی عدم ادا ئیگی کاحکم
81692طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک خاتون جن کی شادی کو تقریباًآٹھ سال ہوگئے ہیں اورتین بچے بھی ہیں ،ایک بچی ان کی فوت ہوگئی ہے جبکہ دو اپنی والدہ کے پاس ہیں ،ان کے بقول شروع میں شوہرکا رویہ ان کے ساتھ درست رہا ،بعد ازواں دوسروں کے ورغلانے پر ان کا رویہ یکسرتبدیل ہوگیااوربات بات پربیوی کے ساتھ جھگڑا کرنے لگے،بلاوجہ گالم گلوچ  کرنے لگے،یہاں تک کہ تشددکرنا  ان معمول بن گیا ،اس صورتِ حال میں بیوی نے پہلے تو بہت صبروتحمل کامظاہرہ کا،لیکن ان سختیوں سے تنگ آکر بسا اوقات کبھی سخت کلامی بھی ہوجاتی ہے،جس پر شوہر نے انہیں گھر سے نکال دیا اوران کے والدین کے گھر بھیج دیا،اس کے بعد سے دوسال کا عرصہ ہوگیاہے شوہرنے کبھی بیوی بچوں سے ملاقات کی ہے اورنہ ہی فون وغیرہ پر بات کی اورنہ ہی کبھی کوئی خرچہ وغیرہ دیتے ہیں۔برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ

1. شوہرکا اس طرح کرنا ازروئے شریعت کیساہےکہ نہ گھر بساتے ہیںاورنہ کوئی رابطہ وغیرہ کرتے ہیں اورنہ خرچہ دیتے ہیں؟

2. دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کے اتنا عرصہ تک قطع تعلق رکھنے کی وجہ سے کیا نکاح پر کوئی اثرپڑا ہے ؟یعنی نکاح باقی ہے یانہیں؟

3. ایسی صورت حال میں شریعت میں مذکورہ عورت کےلیے کیاحکم ہے جبکہ وہ سمجھتی ہے کہ اب ان کا شوہر کے ساتھ مزیدرہنا ممکن نہیں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. سوال میں ذکرکردہ حالات اگرواقع کے مطابق ہوں توشرعی اعتبارسے شوہرکا مذکورہ رویہ درست نہیں ہےکہ وہ نہ گھر بساتے ہیں ،نہ رابطہ کرتے ہیں اورنہ ہی خرچہ دیتے ہیں ؟ اس پر لازم ہے یا تو بیوی کواچھی طرح رکھے اوراس کے جملہ شرعی حقوق اداکرے ورنہ اچھی طرح رخصت کردے اورشرعی طریقے سے طلاق دیدے،بیوی  کولٹکاکے رکھناکسی طرح بھی شرعی اعتبارسے جائز نہیں ہے،لہذا خاوند اس پر توبہ اوراستغفارکرے اورمذکورہ دونوں راستوں میں سے کسی کاانتخاب کرے۔

2. نہیں،نکاح پرشوہرکےبیوی سےلمبے عرصہ کے لیے دور رہنے کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہرسےبرقرارہے۔

3. احادیث شریفہ میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لئے جنت کی خوشبوبھی  حرام ہے،تو اگر سوال میں مذکورحالات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو مذکورہ عورت ہر گز طلاق کا مطالبہ  نہ کرے ، آج کل کے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، اس کوآگے شادی میں بھی مشکلات ہوتی ہیں،عزت اورروزی کے حوالے سےبھی  مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا اگرمذکورہ عورت کا کسی طرح بھی اپنے مذکور شوہرکے ساتھ گزارہ ہوسکتاہے تو سنجیدہ لوگوں کودرمیان میں ڈالکرمعاملہ کو رفع دفع کرے اوراپنا گھر نہ اجاڑے ورنہ پھر پچھتاوا ہوگا۔تاہم  اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور اپنا گھر بسانے پر تیار نہیں ہوتا،  نان ونفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا اورمعززین کی بات بھی نہیں مانتا اور اپنی ضد پر اڑا رہتاہے، تو سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،  اور خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  تاہم لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ پر اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو ایسی سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ گواہوں سے صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرو یا  طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔

(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)

واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں عدالتوں سے جاری ہونے والی خلع کی اکثر ڈگریاں غیر شرعی بینادوں پر ہونے کی وجہ سے شرعاً غیر موثر ہوتی ہیں اوران سے نکاح ختم نہیں ہوتا،لہذا جب مذکورہ عدالت سے خلع لے تو کسی شرعی بنیاد مثلاًنفقہ نہ ملنے کی وجہ سے دعوی دائرکرے اوراپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں (دو دیانتدارمرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے ثابت بھی کریں)ورنہ غیر شرعی بنیاداوربغیرشرعی گواہوں کے ایک فریق کے بنانِ حلفی پر لیاجانے والا عدالتی فیصلہ شرعاًغیرمعتبرہوگا اوراس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)
سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)
عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا
الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .
قال اللّٰہ تعالیٰ:
 {فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} (البقرۃ: ۲۲۹)قد صرح في الخانیۃ: بأنہا لو أبرأتہ عمالہا علیہ علی أن یطلقہا، فإن طلقہا جازت البراء ۃ وإلا فلا۔ (شامي ۵؍۱۰۷ زکریا، ۳؍۴۵۴)
وفی الھندیۃ (۴۸۸/۱):
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔
وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):
قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم  وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب ۔
وفی البحرالرائق  کتاب الطلاق( ج ۳ ص ۲۵۳)
واما سبعہ فالحاجۃ الی الخلاص عند تبائن الا خلا ق و عروض البغضاء المو جبۃ عدم اقامۃ حدود اﷲ الخ ویکون واجبااذا فات الا مساک بالمعروف .
وفي الہدایۃ:
وإن تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللہ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلع بہ۔ لقولہ تعالیٰ:
فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ، فإذا فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقۃ بائنۃ ولزمہا المال، …وإن طلقہا علی مال، فقبلت وقع الطلاق ولزمہا المال۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، اشرفی دیوبند ۲/۴۰۴)
وفی الحیلة الناجزة :
"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت
عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه : قوله وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم... إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لها لأن سبب الفراق  هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذي تقضیه المدونة؛ کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی." (ملخص از حیله ناجزہ، صفحه نمبر73،ط: دار الإشاعت)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١۷/۴/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے