03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باپ کے ساتھ کاروبار میں معاون بیٹے کی اپنے لیے خریدی گئی پراپرٹی کا حکم
71516میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کوئی بیٹا وراثت کی تقسیم سے پہلے کوئی پراپرٹی خریدے،جس کی قیمت کچھ باپ کے کاروبار سے اٹھائے گئے پیسوں اور کچھ والد ہی کے کاروبار کے پیسوں سے خرید کر بیوی کو دئیے گئے زیورات بیچ کر ادا کرے اور پھر اس پراپرٹی کو اپنی اہلیہ کے نام رجسٹر کروادے،کیا اب یہ پراپرٹی وراثت کا حصہ بن کر سب میں تقسیم ہوگی یا اس کی بیوی کی ملکیت رہے گی،جبکہ باپ کے کاروبار سے حاصل کئے گئے پیسوں سے نئے زیورات بنواکر بیوی کو واپس  بھی کردے۔

تنقیح:

سائل سے تنقیح کے ذریعے معلوم ہوا کہ جس نے پراپرٹی خریدی ہے وہ والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں معاون تھا اور والد صاحب اسے ضرورت کے مطابق خرچہ دیا کرتے تھے،یہ پراپرٹی والد کی زندگی میں خریدی گئی ہے اور والد کو اس کا علم بھی تھا،لیکن اس نے والد سے کہا تھا کہ اس رقم کا انتظام میں خود کروں گا،کاروبار کے پیسوں سے نہیں دوں گا۔

نیز اس پراپرٹی کو اس نے فقط کاغذات کی حد تک بیوی کے نام کروایا تھا،قبضہ اسے نہیں دیا تھا،بلکہ اس کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرنا ہوتا خود کرتا تھا،کاغذات کی حد تک بیوی کے نام کروانے کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ والد کی مشترکہ جائیداد کا حصہ نہیں  ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اس بیٹے نے یہ پراپرٹی اپنے لیے خریدی تھی،بیوی کے نام فقط کاغذات کی حد تک کرائی تھی،حقیقی قبضہ اسے نہیں دیا تھا،اس لیے یہ پراپرٹی اسی کی ملکیت ہوگی،البتہ پراپرٹی کی جو قیمت اس نے والد صاحب کے کاروبار سے ان کی مرضی کے ساتھ قرض لے کر یا ان کے علم میں لائے بغیر ادا کی تھی وہ اس کے ذمے قرض ہے،جس کی ادائیگی اب ورثہ کو کی جائے گی۔

نیز یہی حکم ان پیسوں کا بھی ہوگا جن کے ذریعے اس نے بیوی کو دوبارہ زیور بنواکر دیا کہ اگر والد صاحب کی اجازت سے دوبارہ زیور بنوایا ہو تو پھر اس کی رقم ورثہ کو لوٹانا لازم نہیں،لیکن اگر ان کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بنواکر دیا ہو تو پھر وہ رقم بھی بیٹے کے ذمے قرض ہے،جسے اب ورثہ کو لوٹانا لازم ہے۔

حوالہ جات

"فقہ البیوع" (1/ 226):

"وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ ما یسمی فی القوانین الوضعیة عقوداً صوریة ...وھی ان تشتری ارض باسم غیر المشتری الحقیقی وتسجل الارض باسمہ فی الجہات الرسمیة و ذلک لاغراض ضریبیة او لاغراض اخری ولکن المشتری الحقیقی ھو الذی دفع ثمنہ...

القانون الوضعی فی بلادنا یعترف بان المشتری الحقیقی ھو الذی یدفع الثمن،اما الذی سجل العقد باسمہ صورةً فانہ یعتبر امینا للمالک الحقیقی".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب