72240 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ہم نے ایک مکان بنوایا ہے جو سات کمروں اور ایک بیٹھک پر مشتمل ہے،تعمیر کچھ ایسی ہوئی ہے کہ نچلے کمروں کی چھت پر گارڈر یعنی سمینٹ کے بیم اور سلپ لگوائے ہیں،جبکہ اوپر کے چار کمروں کی چھتوں پر سمینٹ کی استعمال شدہ چادریں ڈالی ہیں اور دو کمروں پر رقم کی کمی کی وجہ سے چادریں نہیں ڈالی جاسکیں،اس کے ساتھ ہم پر ڈھائی لاکھ کا قرضہ بھی چڑھ گیا ہے،طے یہ ہوا تھا کہ اس قرض کی ادائیگی اور کمروں کی تکمیل مشترکہ طور پر ہوگی۔
اللہ نے مجھے پانچ لڑکوں اور تین لڑکیوں سے نوازا تھا،لیکن آج سے کچھ عرصہ پہلے بڑے دو لڑکوں کا بقضاء الہی انتقال ہوگیا اور تین لڑکے تین لڑکیاں رہ گئیں،ان سب کی شادیاں ہوگئیں ہے،فوت شدہ بڑے لڑکے کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں رہ گئی تھیں جن میں سے دو لڑکیوں کی شادی ہوگئی ہے،جبکہ ایک لڑکا اور لڑکی مرحوم کی بیوی یعنی اپنی ماں کے ساتھ الگ رہائش پذیر ہیں،یہ لوگ مرحوم کی زندگی میں ہی ہم سے الگ ہوگئے تھے،اسی طرح تیسرا لڑکا بھی اس کے ساتھ ہم سے الگ ہوگیا تھا اور الگ رہ رہا ہے،ان دونوں فیملیوں کے خرچے ہم سے الگ ہیں اور الگ ہوتے وقت کھانے،پینے کے برتن بھی اٹھالیے تھے،چوتھے لڑکے کی شادی ہم نے مرحوم کی بیوہ سے کردی ہے،انتقال کے بعد مرحوم کے دو لڑکے اور دولڑکیاں رہ گئیں تھیں،ایک لڑکی کی شادی ہوگئی ہے،جبکہ ایک لڑکی اور ایک لڑکا ماں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں،ان کے ساتھ ہم بوڑھا بوڑھی بھی رہتے ہیں، وہ ہماری خدمت کرتے ہیں،اسی طرح چھوٹا لڑکا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ الگ رہتا ہے اور اب ہمارا سارا دارومدار چھوٹے بھائیوں پر ہے۔
اس مکان میں ہم نے عارضی طور پر ہر فیملی کو دو کمرے دیئے ہیں،لیکن جن کے ساتھ ہم رہتے ہیں ان دو پوتوں کو گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کمرہ تک نہیں ملا،اب جبکہ قرض اتارنے کا معاملہ ہے تو یہ دونوں پوتے کہتے ہیں کہ ہمیں مکان میں کوئی کمرہ نہیں ملا،لہذا قرضہ اتارنے اور کمروں کی تکمیل میں ہم کیسے حصہ دار بنیں؟
میرے پاس باپ دادا کی کوئی جاگیر نہیں تھی،بچپن سے کراچی آکر محنت مزدوری کرکے یہ مکان بنوایا کہ ہم سب کو سکون ہوگا اور سب ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے،لیکن یہ سب اپنے اپنے حصے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
سب کی شادیاں احقر کے ہاتھوں ہوئی ہیں اور بیویوں کا حق مہر بھی سکہ رائج الوقت کے مطابق پانچ تا سات تولے سونا ان کی بیویوں کے ملکیت میں دیا ہے،جس لڑکے نے بیوہ بھابھی سے نکاح کیا ہے اس نے اپنا مہر اسے ہبہ کردیا ہے،سب سے چھوٹے لڑکے نے اپنی شادی کے تمام اخراجات مع حق مہر وغیرہ بذات خود برداشت کیے ہیں۔
میرے تین پوتے ہیں،اگر میں اپنی مرضی سے انہیں کچھ حصہ دوں تو کیسے دوں؟ کیونکہ لدھیانوی صاحب مرحوم کی کتاب میں میں نے پڑھا ہے کہ دادا کی جائیداد میں پوتوں کا حصہ نہیں ہے،اگر وہ خود دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ میں ان دو پوتوں کی کیسے کیسے مدد کروں جو کمروں کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے،کیونکہ انہیں مکان میں کوئی کمرہ نہیں ملا؟
بڑے لڑکوں کا حصہ کتنا ہوگا؟ اسی طرح بیٹیوں کا کتنا حصہ ہوگا؟
ماشاء اللہ ہم میاں بیوی ابھی زندہ ہیں اور میں ایک ٹانگ سے معذور ہوگیا ہوں،کسی کام کاج کے قائل نہیں ہوں،ویسے بھی ضعیف ہوچکا ہوں۔
دوسری صورت میں اگر مکان فروخت کروں تو اس کی رقم میں اپنے علاوہ ان لوگوں کو کتنا حصہ دوں؟اس وقت اس مکان کی قیمت تقریبا ساٹھ یا سترلاکھ روپے ہوگی۔
تنقیح: سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ قرض اس نے لیا ہے،لیکن بیٹوں سے کہا تھا کہ یہ مکان میں مشترکہ رہائش کے لیے تعمیر کروارہا ہوں،اس لیے اس کی ادائیگی میں تم سب میرے ساتھ تعاون کرنا جس پر بیٹوں نے رضامندی کا اظہار کیا۔
پوتوں کے حوالے سے اس کا کہنا یہ تھا کہ میں نے پوتوں سے کہا ہے کہ میں تمہیں حصہ دوں گا اس لیے تم بھی قرض کی ادائیگی میں تعاون کرو،اگر بالفرض میں تمہیں حصہ نہ دے سکا تو تم نے جتنا قرض ادا کیا ہوگا وہ میں تمہیں واپس کردوں گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرنے سے پہلے ہر شخص اپنی تمام جائیداد اور دیگر املاک کا تنہا مالک ہے اور اس میں تصرف کا اسے مکمل اختیار حاصل ہے، اس میں بچوں اور دیگر وارثوں کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی اولاد میں سے کوئی اُس شخص سے اْس کی زندگی میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتا ہے، کیونکہ میراث کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعد سے ہے،لہذا آپ کے زندہ ہوتے ہوئے آپ کے بیٹوں کا اپنے حصے مانگنے کی شرعا کوئی حیثیت نہیں اور ان کے مطالبے کو پورا کرنا شرعا آپ پر لازم نہیں۔
تاہم اگر آپ اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی بقیہ زندگی کیلئے جو کچھ مال رکھنا چاہے رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، پھر بیوی اگر حیات ہو تو بقیہ مال میں سےکم از کم آٹھواں حصہ بیوی کو دیدے، اس کے بعد جو کچھ بچے اس میں افضل و بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو چاہے بیٹا ہو یا بیٹی برابر دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ کے محض نقصان پہنچانے کی نیت سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا ناجائز ہے۔
تاہم اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔
اورچونکہ اس طرح زندگی میں جائیداد کی تقسیم شرعاہبہ(یعنی گفٹ) ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ تام نہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
نیز بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتوں کو میراث میں سے تو حصہ نہیں ملتا،لیکن جیسا کہ ذکر کیا جاچکا کہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ کے حکم میں ہے،اس لیے آپ اپنی مرضی سے پوتوں کو ضرورت کے بقدر اپنی جائیداد میں سے حصہ دے سکتے ہیں۔
اور جب آپ پوتوں کو حصہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں بھی قرض کی ادائیگی میں آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
حوالہ جات
"درر الحكام شرح مجلة الأحكام " (3 / 210):
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير . انظر المادة ( 1197 ) . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له : أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف ".
"رد المحتار" (4 / 444(:
"ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى".
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"الدر المختار"(6/ 780):
"(و) الثاني (أن من أدلى بشخص لا يرث معه) كابن الابن لا يرث مع الابن".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
23/رجب1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |