021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسے پلاٹ کا حکم جس کی ممبرشپ کے کچھ پیسے والد نے ادا کئے ہوں
72467میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے ابو اقبال عبداللہ نے اپنی زندگی میں میمن نگر سوسائٹی اسکیم 33 میں ایک پلاٹ کی ممبر شپ حاصل کی تھی،جولائی 1971 تا اپریل 1981 تک مختلف اوقات میں اپنی ہی رقم سے ممبر شپ کی مد میں 11640 روپے جمع کروائے تھے،لیکن ابو کی زندگی میں پلاٹ کا نہ کوئی سیکٹر طے تھا اور نہ ہی کوئی نمبر،بلکہ سوسائٹی کی زمین ناہموار جھاڑیوں کا میدان تھی،زمین کی اسی حالت میں 11 نومبر 1981 کو میرے ابو کا انتقال ہوگیا،ورثہ میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور الحمدللہ سب حیات ہیں اور ایک بیوہ یعنی میری امی جان تھی جن کا انتقال 20 اگست 2016 میں ہوا ہے۔

پلاٹ کو حاصل  کرنے کے لیے سوسائٹی سے میرے نام پر ممبر شپ ٹرانسفر کرلی گئی،اس پلا ٹ کی بقایا رقم 51570 روپے کی ادائیگی میں نے اور میرے چھوٹے بھائی ادریس نے مل کر مشترکہ آمدنی سے کی۔

زمین پر کام شروع ہوا،سیکٹر کا انتخاب ہوا اور پلاٹ کے نمبروں کے لیے قرعہ اندازی ہوئی اور کچھ عرصہ بعد میرے نام پر پلاٹ کا نمبر اور الاٹمنٹ لیٹر ملا اور 1995 تک میرے نام سے قبضے کا آرڈربھی جاری کردیا گیا۔

مارچ 2005 میں اس پلاٹ کو بائیس لاکھ میں فروخت کردیا گیا،پھر مجھ سے چھوٹے بھائی ادریس کو یہ رقم دے کر کاروبار شروع کیا گیا،مجھے وراثت کے بارے میں بالکل بھی علم نہ تھا،اب معلوم کرنا ہے کہ میرے ابو کی ممبر شپ کے تحت ابو نے جو بھی رقم جمع کرائی تھی اور میرے اس پلاٹ کو فروخت کرنے اور پھر چھوٹے بھائی ادریس کے ساتھ کاروبار شروع کرنے تک وراثت سے متعلق آگاہ کیجئے گا،اس تفصیل کی روشنی میں اب درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں

1۔ کیا یہ سوسائٹی والا پلاٹ وراثت کا تھا؟

2۔ابو نے 11640 روپے کی رقم 1981 تک جمع کروائی تھی کیا یہ رقم تقسیم ہوگی؟

3۔2005 میں پلاٹ بائیس لاکھ میں فروخت کیا تو کیا یہ رقم وراثت میں تقسیم ہوگی؟

4۔2005 کے بعد چھوٹے بھائی ادریس کے ساتھ کاروبار شروع کروانے میں مکمل رقم لگادی اور ہم آج بھی اپنا کاروبار کررہے ہیں تو کیا موجودہ حیثیت میں جو موجود ہے،یہ سب ورثہ میں تقسیم ہوگا؟

5۔میری والدہ مرحومہ بھی ورثہ میں تھیں،ان کے حصے کا کیا کریں گے؟

6۔اس ایک پلاٹ میں ابو کی کمائی کے بعد بقایا ادائیگی کے لیے میری اور چھوٹے بھائی ادریس کی محنت کی کمائی بھی شامل ہوچکی ہے،لیکن یہ پلاٹ میرے نام پر تھا اور اس کے سارے کاغذات بھی میرے نام پر تھے تو اب میں کس طرح سے شرعی طور پر چھوٹے بھائی ادریس کا حق ادا کرسکوں گا؟

7۔اس پلاٹ پر میری اور بھائی ادریس کی محنت کی کمائی خرچ ہوچکی ہے تو دونوں کا کتنا حصہ ہوگا؟

تنقیح: سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ یہ پلاٹ انہوں تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت کی نیت سے خریدا تھا،تاہم ایک بھائی کی شادی کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل گیا اور مالی لحاظ سے ان بھائیوں سے بہتر ہونے کے باوجود اپنے بھائیوں،بہنوں سے بالکل لاتعلق ہوگیا،ان دو بھائیوں نے بہنوں کی شادیاں وغیرہ کیں اور اب بھی بہنوں کی ضرورت کے وقت یہی دو بھائی کام آتے ہیں،وہ پوچھتا تک نہیں،اس وجہ سے ان بھائیوں نے یہ پلاٹ اس کی اجازت کے بغیر بیچا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم اس کی اجازت کے بغیر کاروبار میں لگائی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

،2۔ چونکہ  والد صاحب کی وفات کے بعد آپ نے اور آپ کے چھوٹے بھائی ادریس نے  مزید قسطیں جمع کراکر یہ پلاٹ ذاتی طور پر تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت کی نیت سے خریدا تھا،اس لیے یہ آپ تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھا،دیگر ورثہ کا اس میں حق نہیں،البتہ وہ رقم (11640)جو مرحوم والد نے جمع کرائی تھی ان کے انتقال کے بعد وہ تمام ورثہ کی مشترکہ ملکیت میں آگئی تھی،اس لیے آپ کے ذمے لازم ہے کہ اس میں سے آپ تینوں بھائیوں کا جتنا حصہ  بنتا ہے اس کے علاوہ بقیہ رقم دیگر ورثہ کو دے دیں۔ 

3۔چونکہ پلاٹ آپ تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھا،دیگر ورثہ کا اس میں حصہ نہیں تھا،اس لیے اسے فروخت کرنے کے نتیجے میں جو رقم حاصل ہوئی وہ بھی ورثہ میں تقسیم نہیں ہوگی۔

4۔چونکہ پلاٹ فروخت کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم آپ تین بھائیوں کی تھی،اس لیے  اس رقم سے کاروبار کے حجم میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں بھی بھائیوں کے علاوہ  دیگر ورثہ کا حق نہیں ہوگا۔

5۔آپ کی والدہ کے  حصے میں مرحوم شوہر کی میراث میں سے جو مال آیا تھا وہ ان کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

6،7۔اگرچہ والد کی وفات کے بعد بقیہ اقساط آپ دوبھائیوں نے اپنی مشترکہ آمدن ادا کی تھیں،لیکن چونکہ اس وقت آپ لوگوں کی نیت یہ تھی کہ یہ پلاٹ تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت ہوگا،اس لیے یہ پلاٹ آپ تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھا،لہذا اس پلاٹ میں سے تیسرے بھائی کے حصے کی بیع ان کی اجازت کے بغیر جائز نہ تھی،لہذا سب سے پہلے تو آپ انہیں اس بارے میں مطلع کریں اور ان کے حصے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک تہائی رقم یعنی 733,333.33 انہیں پیش کریں،اگر وہ لے لیں تو سابقہ بیع نافذ ہوجائے گی اور بقیہ دو تہائی رقم یعنی1,466,666.66روپے آپ دونوں بھائیوں میں آدھی آدھی تقسیم ہوگی۔

تاہم اس تیسرے بھائی پر لازم ہے کہ آپ لوگوں نے اس پلاٹ کی مد میں جتنی رقم جمع کرائی تھی،اس کا تہائی حصہ آپ دونوں بھائیوں کو دے دے۔

بقیہ اس پلاٹ کو بیچنے کی نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم سے کاروبار کے حجم میں جو اضافہ  اور نفع ہوا ہے اس کا حکم بھی یہی ہے کہ دو تہائی نفع آپ دونوں بھائیوں کا ہے،جبکہ بقیہ ایک تہائی نفع کا آپ لوگوں کے ذمے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم ہے،کیونکہ آپ لوگوں نے تیسرے بھائی کے حصے کی رقم ان کی اجازت کے بغیر کاروبار میں لگائی تھی،نفع کی یہ رقم اگر آپ لوگ تیسرے بھائی کو دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

نیز چونکہ بہنوں کی شادیوں وغیرہ کے اخراجات آپ دونوں بھائیوں نے مشترکہ طور پر برداشت کیے ہیں،جبکہ مالی لحاظ سے آپ دونوں بھائی تیسرے بھائی سے کمزور ہیں تو اخلاق اور مروت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھائی آپ لوگوں کے ساتھ تعاون کرے اور اپنے حصے کی پوری رقم نہ لے یا کچھ لے اور کچھ چھوڑدے،لیکن اگر وہ دلی رضامندی سے نہ چھوڑنا چاہے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

حوالہ جات
"مجلة الأحكام العدلية" (ص: 204):
"شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث أو بخلط".
"شرح المجلة لخالد الاتاسی" (4/ 38):
"احدالشریکین فی الدین المشترک اذا اشتری بحصتہ متاعا من المدیون ولم یقبض منہ شیئا فلایکون الدائن الآخر شریکا فی ذٰلک المتاع،لکن لہ ان یضمنہ حصتہ من ثمن ذٰلک المتاع وان اتفقا علی کون المتاع مشترکا کان بینھما کذلک".
"مجمع الضمانات "(ص: 130):
"ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.
وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

30/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب