73146 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
سوال:محترم جناب افتخار احمد صاحب!دارالافتاء،جامعۃ الرشید،احسن آباد،کراچی
میرےایک عزیزجناب محمد شمیم الدین خان ولدمحمدنظام الدین خان(شناختی کارڈ نمبر: 5-0924766-42101)، سکنہ نارتھ کراچی کامورخہ 27 جنوری 2021ء کو انتقال ہوگیاتھا۔ بصورت لاولدی انکے لواحقین میں فقط انکی بیوہ مسمات نگہت پروین شفیع ولد محمد شفیع خان (شناختی کارڈ نمبر: 0-1750113-42101)، سکنہ نارتھ کراچی موجود ہیں۔
مرحوم کےوالدین وفات پاچکےہیں۔ فی الوقت مرحوم کےتمام وارثین میں(ایک بیوہ،مرحوم کےتین بھائی اور ایک بہن)شامل ہیں۔
قبل از رشتہ ازدواج سےہی دونوں ملازمت پیشہ تھے۔مرحوم شوہربینک ملازم تھےاورتمام مالی معاملات مشترکہ طورپرمرحوم شوہر ہی دیکھتے تھے اوردونوں کی آمدنی کا تفاوت حسب ذیل درج ہے۔
مرحوم کی آمدنی:
تنخواہ (2011) =/68,317
ریٹائرمنٹ (2012) =/3,533,783
پنشن (2012) =/5,713
پنشن کامل (2015) =/601,627
بیوہ کی آمدنی:
تنخواہ (2018) =/80,492
ریٹائرمنٹ (2018) =/2,484,496
پنشن (2019) =/64,747
گھر کے اثاثہ جات کی تفصیل درج ذیل ہے:
۔ بینک اکاؤنٹ
۔ قومی بچت اسناد
۔ پلاٹ 240 مربع گز، گلشن معمار
۔ مکان 2-منزلہ 120 مربع گز، نارتھ کراچی
۔ کار 1984 ڈائی ہاٹسو
"دارالافتاء سے مطلوب فتوی"
بیوہ کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ وہ بھی تاحیات سرکاری ملازمت کرتی رہی ہیں اورگھرکےمالی معاملات بینک ملازم ہونےکی وجہ سےمرحوم شوہرمشترکہ طورپردیکھتے تھےاس لئے"گھرکےاثاثہ جات"کی مالیت کا (٪50) اس کا حصہ ہےاوربقیہ (٪50)کومرحوم شوہرکےتمام وارثین(ایک بیوہ،مرحوم کےتین بھائی اورایک بہن) میں شرعی طریقہ سےتقسیم کیلئےدارالافتاء سےمطلوب فتوی جاری کردیاجائے۔رب کریم آپ سب کوجزاء خیرعطا کرےاورہم سب آپ کےمشکوروممنون رہیں گے۔
محرر مقدمہ:محمدنعیم خان(شناختی کارڈ نمبر: 1-0684931-42201)
سکنہ گلشن معمار،کراچی ٹیلیفون نمبر: 03212111080o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اصولی طورپریہ دیکھاجائےکہ گھرکےاثاثےکس کےنام پرہیں؟اورکس کی کتنی رقم لگی ہے؟اگراندازےسےالگ کرناممکن ہوتوجس کی زیادہ رقم لگی ہے،اورکاغذات بھی اسی کےنام پرہیں،تواثاثہ شرعااسی کاشمارہوگا،میراث بھی اسی کےحساب سےتقسیم ہوگی،جواثاثہ خاص بیوہ کاہےوہ میراث شمارنہیں ہوگا۔
واضح رہےکہ جس اثاثےکےبارےمیں معلوم ہومثلاشوہریابیوی نےاپنےپیسوں سےخریداہے،وہ تواسی کاشمارہوگا،جس کی رقم سےخریداگیاہے۔لیکن وہ اثاثے،جن کےبارےمیں علم نہیں اوراندازہ لگانامشکل ہوتوایسےاثاثےمیاں بیوی دونوں میں مشترک شمارہوں گےاوردونوں کانصف نصف حصہ ہوگا۔
اس تفصیل کےمطابق مذکورہ بالااثاثوں کی تفصیل اگرواقعتایہی ہوتوپھرسوال میں ذکرکردہ تقسیم شرعادرست ہوگی(اثاثہ جات کا50فیصدحصہ بیوہ کاذاتی شمارہوگا،اورباقی میراث میں تقسیم ہوگا)البتہ میراث میں بیوہ کاالگ سےبھی حصہ ہوگا،لیکن اس کےلیےبیوی پرلازم ہوگاکہ امانت ودیانت کےساتھ اثاثہ جات کی مکیت کی تفصیل بتائےاوراسی کےمطابق میراث کی تقسیم کی جائے۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 17 / 114 :
مطلب : اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [ تنبيه ] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز فأجاب بأنه بينهما سوية،وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتهامع استيفاء شروطها،ثم هذا في غيرالابن مع أبيه؛لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔
"رد المحتار" 17 / 114:
ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة ، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له ، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
12 /رمضان 1442 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |