021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ کے طورپردی جانے والی زمین ترکہ میں شامل ہے یانہیں؟
73226میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے  داداجان کے تین بیٹے اورنوبیٹیاں ہیں،جن میں دوبیٹیاں انتقال کر گئیں،دادانے زندگی میں تمام جائیداد اپنےبیٹوں کے حوالہ کرکے قابض بنادیاتھا،جبکہ بیٹیوں میں سے دوکوحصہ دیاتھا اورباقی کومحروم رکھا ہے،داداجان 2008 میں انتقال کرگئے،ان کی بیٹیاں جائیدادمیں اپنے حصہ کامطالبہ کررہی ہیں،جبکہ داداجان وفات سے قبل اس بات سے انکاری تھاکہ ان کوجائیداد میں حصہ دیاجائے،داداجان کا انتقال مفلسی کی حالت میں ہواہے،اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات ہیں:

١۔داداجان جوکہ مفلسی کی حالت میں فوت ہوئے ،انتقال سے 25 سال قبل  انہوں نے اپنی ساری جائیداد بیٹوں کوہبہ کے حوالہ کردی تھی،بیٹے ہی 25 سال اس جائیدادکواستعمال کرتے رہے توشرعی لحاظ سے بیٹیوں  کااس زمین میں حصہ بنتاہے یانہیں؟اگرنہیں توبیٹیوں کوعدالت سے کیسے حصہ دلایاجاسکتاہے؟

داداجان کی جوبیٹی ان کی حیات میں فوت ہوئی ہے توکیااس مرحومہ کی اولاد کوشریعت میں وراثت مل سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے دادا کو چاہیے تھاکہ اپنی تمام اولاد میں برابری کرتے ہوئے سب کواپنی ملکیت میں سےبرابر سرابر یاکم ازکم ہرلڑکی کولڑکے کے مقابلے میں نصف دیتے،صرف لڑکوں  کوجائیدادکامالک بنانااور بیٹیوں کو محروم کرنا شرعاً درست اقدام نہیں تھا اس سے وہ گناہگارہوئے، تاہم جب انہوں نے یہ کام کرہی لیاہے تو اب اس کاحکم یہ ہے کہ اگردادانے جائیدادہبہ (گفٹ)کرنے کے بعد بیٹوں کو جائیداد پرمکمل اختیاردیتے ہوئےان کے حوالہ کردی تھیں تو بیٹے اس جائیداد کے مالک بن گئے،داداکی ملکیت سے یہ جائیداد نکل گئی  اورترکہ میں شامل نہیں،جب یہ ترکہ میں شامل نہیں توبیٹیوں کااس میں حصہ نہیں بنتا،البتہ بھائی اگراپنی خوشی سے بہنوں کودیناچاہیں تو دے سکتے ہیں،بلکہ دینازیادہ بہترہے۔

دادا کی زندگی میں وفات پانے والی بیٹی کاداداکے ترکہ میں شرعی طورپرحصہ نہیں ،نیزمرحومہ کی اولاد بھی  داداکے شرعی وارث نہیں  ہیں،اس لئے اگرداداکاترکہ موجودہے توشرعی طورپران کاحصہ نہیں بنتا،البتہ اگرورثہ اپناحصہ دیناچاہیں تودے سکتے ہیں۔

حوالہ جات
وفی السنن الكبرى للبيهقي (ج 6 / ص 176):
عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين.
وفی السنن الكبرى للبيهقي (ج 6 / ص 177):
عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ».
وفی خلاصة الفتاوی (ج: 4ص: 400):
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار.
وفی رد المحتار (ج 24 / ص 42):
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب