021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی گفتگو کے دوران اقرار طلاق کا حکم
73298طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

میاں بیوی میں یہ گفتگو ہوئی ہے:

بیوی: تم آج طلاق دو میں کل چلتی ہوں یہاں سے۔

شوہر: میں تو طلاق، سمجھ لو، دے چکا ہوں نا تم کو۔

بیوی: سمجھ کیسے لوں؟ لکھ کر دو۔

شوہر: لکھ کر کیا دوں؟ دے دی ہے بھائی چلی جاؤ۔

بیوی: کیسے دے دی ہے تم نے؟ کہاں دی ہے؟

شوہر:دے دی ہے، تمہارے ماں باپ کے گھر چھوڑ آیا تھا۔

بیوی: چھوڑنا طلاق نہیں ہوتی۔

شوہر: بے غیرتی ہوتی ہے بھائی۔

اس گفتگو کے مطابق کیا بیوی کو طلاق ہو گئی ہے؟ اگر ہو گئی ہے تو کتنی طلاق ہوئی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت میں شوہر نے طلاق دینے کا تین مرتبہ ذکر کیا ہے۔ ان تینوں کا حکم یہ ہے:

1.     پہلا جملہ یہ ہے: " میں تو طلاق، سمجھ لو، دے چکا ہوں نا تم کو"۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

2.     دوسرا جملہ یہ  ہے: "دے دی ہے بھائی"۔ سیاق و سباق کی روشنی میں یہ جملہ اگرچہ ماضی میں طلاق دینے کا اقرار ہے لیکن طلاق کے باب میں اقرار بھی طلاق کا حکم رکھتا ہے۔ چنانچہ اگر شوہر اس اقرار میں سچا ہے تو دیانۃً و قضاءً ایک طلاق واقع ہو چکی ہے اور اگر جھوٹا ہے تو قضاءً طلاق واقع ہو گئی ہے۔ چونکہ بیوی نے یہ جملہ خود سنا ہے لہذا وہ اسے طلاق ہی سمجھے گی۔

3.     تیسرا جملہ "دے دی ہے، تمہارے ماں باپ کے گھر چھوڑ آیا تھا"پچھلے جملے کی ہی تاکید ہے لہذا اس سے کوئی الگ طلاق واقع نہیں ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق بیوی ایک طلاق واقع سمجھے گی۔ عدت کے دوران شوہر بیوی سے رجوع کر سکتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ شوہر یہ کہہ دے کہ "میں اپنی بیوی سے رجوع کرتا ہوں"۔ بہتر ہے کہ دو گواہوں کے سامنے کہے۔ نیز اگر تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے میاں بیوی والا تعلق قائم کر لیا تو اس سے بھی خود بخود رجوع ہو جائے گا۔ رجوع کے بعد آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

حوالہ جات
"امرأة قالت لزوجها مرا طلاق ده فقال الزوج داده كير أو قال كرده كير أوقال داده باد أو قال كرده باد، اختلف المشايخ فيه والصحيح أنه  ينوي، إن نوى الإيقاع يقع واحدة رجعية، وإن لم ينو لا يقع شيء.  ولو قال الزوج داده است أو قال كرده است أو قال دادشده است او قال كرده شده است يقع واحدة رجعية نوى أو لم ينو، وإن قال ما نويت به طلاقا لا يصدق قضاءً، ولو قال الزوج داده إنكار أو قال كرده إنكار لا يقع الطلاق وإن نوى كأنه قال لها بالعربية احسبي أنك طالق، وإن قال ذلك لا يقع وإن نوى."
(فتاوى قاضي خان على هامش الهندية، 1/457، ط:مكتبه ماجديه، كوئته)
 
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 3/236، ط: دار الفکر)
 
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 3/251، ط: دار الفکر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

04/ ذو القعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب