021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائی کے دباؤ میں آکرتحریری طلاق دینا
73306طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

تقریباً ایک سال پہلے میری شادی ہوئی،چند ماہ گھروالوں کےساتھ خوشی کی زندگی گزری پھر ساس بہوکے جھگڑوں کی وجہ سے میں اپنی فیملی کے ساتھ الگ رہنے لگ گیا ،کچھ عرصے کے بعد گھریوں معاملات  کی وجہ سےسسرال والوں کےساتھ میرا جھگڑا ہوگیا اوراس جھگڑے کی وجہ سے میری بیوی میکے چلی گئی اورمیرے شدیداصرار کے باوجود وہ واپس میرے گھر نہیں آئی جس پر میں نے غصےسے اپنے گھروالوں کو کہہ دیاکہ جہاں آپ چاہتے ہیں وہاں میری دوسری شادی کرادیں،میں نے اس کو اپنےساتھ نہیں رکھنااورنہ ہی اسے طلاق دوں گا ،اگرآزاد ی چاہتی ہوگی تو خلع لے لیگی ،پھر کچھ دنوں بعد میری بیوی سے میرے تعلقات بحال ہوگئے جس پر میرے گھر والے ناخوش تھے ،میری والدہ مجھ سے طلاق دینے کا شدیدتقاضہ کرتی تھی رہتی تھی،اورمیرے انکارپر وہ رونے اوربدعائیں دینے لگ جاتی تھی اوریہ روزانہ کا معمول بن گیاتھا جس سے تنگ آکر میرے بھائی نے قرآن مجید اٹھایااورمیرے اوراپنے سرپر رکھ کرقسم کھائی کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تو میں تم دونوں کو جان سے ماردوں گا،ہماری برادری میں یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید اٹھاکرقسم کھالے تو کسی بھی حالت میں اسے وہ قسم پوری کرنی ہوتی ہے ورنہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بڑی آفت قسم اٹھانے والے پر آئےگی اورگنہگاربھی ہوگا،یہ قسم اٹھانے کے بعد بھائی نے چھری اٹھائی اورمجھ سے کہا کہ طلاق دو،اس کے بغیر آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس شدیدمجبورکی وجہ سے میں نے اپنی اوربیوی کی جان بچانے کے لیے بھائی سے حامی بھرلی کہ میں طلاق دیدوں گا،آپ پیپر بنوائیں،بھائی کے مجبورکرنے سے پہلے تک  بیوی کے ساتھ میرے تعلقات صحیح تھے ،اب چونکہ اگلے دن ان کے پاس پیپر پہنچنےتھے تو اس لیے میں نے بیوی کے ساتھ مصنوعی جھگڑے کی صورت پیدا کی اوریہ میں نے بھائی کی مذکورہ قسم اورجبرکی وجہ سے کیا اوربیوی سے کہ کہا کہ میں آپ کے ساتھ تعلقات نہیں رکھناچاہتا، لہذا آپ کے پاس پیپر پہنچ جائیں گے، جھگڑے والے دن ہی میں نے بھائی کو پیپر بنوانے کےلیے بلوایا اوربھائی نے اپنی مرضی سے تین طلاق کے پیپر بنوائے اورمیں نے اس پر دستخط کردیا اورانگوٹھالگالیا اورایک دو دن بعد بیوی کے پاس پہنچادیئے، اس کے بعد میں نے سسرال والوں کو بتایا بھی کہ یہ میری مرضی کے پیپر نہیں ہیں، مجھے مجبورکیا گیا ہے ،ان تمام صورتوں میں ایک بار بھی میں نے زبان سے طلاق کا لفظ نہیں نکالا سوائے اس صورت کے کہ جو بھائی کے مجبورکرتے وقت پیش آئی کہ میں نےکہا کہ "میں طلاق دیدوں گا" لہذا آپ مفتیانِ کرام سے درخواست ہے کہ کیا شریعت کی رو سے مذکورہ صورتِ حال میں میرے اور بیوی کے درمیان طلاق واقع ہوگئی ہے یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    سائل کی تحریرپڑھنے اور ان سے زبانی تفصیلی گفتگوں کرنے کے نتیجے میں ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تین طلاق کے مذکورہ تحریری طلاق نامے پر دستخط کرتے وقت ان پر بھائی کی قسم اورچھری کے ذریعے قتل کی دھمکی کا پورا دباؤ تھا اوراسی سخت دباؤ کے نیتجے میں اس نے اس طلاق نامے پر دستخط کئے ہیں، لہذا شرعی اکراہ متحقق ہونے کی وجہ سے مذکورہ طلاق نامے پر دستخط کرنے کی وجہ سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 128):
الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله)
رد المحتار - (ج 25 / ص 79)
( قَوْلُهُ : فِي الْحَالِ ) كَذَا فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ عَنْ الْبُرْهَانِ وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ اتِّفَاقِيٌّ إذْ لَوْ تَوَعَّدَهُ بِمُتْلِفٍ بَعْدَ مُدَّةٍ ، وَغَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ إيقَاعُهُ بِهِ صَارَ مُلْجِئًا تَأَمَّلْ .
المبسوط لشمس الدين السرخسي - (ج 18 / ص 76)
فالمعتبر في المكره تمكنه من ايقاع ما هدده به فانه إذا لم يكن متمكنا من ذلك فاكراهه هذيان وفى المكره المعتبر أن يصير خائفا على نفسه من جهة المكره في ايقاع ما هدده به عاجلا لانه لا يصير ملجأ محمولا طبعا الا بذلك وفيما أكره به بان يكون متلفا أو مزمناأو متلفا عضوا أو موجبا عما ينعدم الرضا باعتباره.
وفی الھندیة1 : 472
رجل اکره بالضرب والحبس علی أن يکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت
فلان بن فلان طالق لا تطلق.فتاوی قاضی خان علی هامش عالمگيري، 1 : 472، طبع بلوچستان
رد المحتار - (ج 10 / ص 458)
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا ، كذا في الخانية.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید  

   3/11/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب