73336 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! ازراہ کرم اس مسئلہ کےبارےمیں شرعی راہنمائی فرمائیں کہ ایک شخص جس کی مارکیٹ میں ایک عدددکان تھی،لیکن اس شخص کانوجوانی میں کچھ سال قبل انتقال ہوگیا،اوراس کی دوبیٹیاں اورایک بیٹاہے،جوابھی چھوٹےہیں،اسی طرح یہ بچےبیوہ کےپاس ہیں،اوربیوہ نےدوسری جگہ نکاح کرلیااوربچوں کاداداابھی حیات ہے،داداکہہ رہاہےکہ دکان کی پراپرٹی میں نےخریدی تھی،اس کےپیسےمجھے دےدواوربیوہ کےجوبنتےہیں وہ اس کودےدو،اوردکان میں نےلےکردی تھی،لیکن دکان مرنےوالےکےنام تھی،توپوچھنایہ ہےکہ اس میں بیوہ کاکتناحصہ ہوگااوربچوں کےداداکاکتنا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
موجودہ صورت میں میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحوم کی کل میراث(جائیداد،نقدی اورتمام چھوٹابڑاسامان جوبوقت وفات مرحوم کی ملک میں تھا)کاآٹھواں حصہ(12.5فیصد) بیوہ کاہوگا،اورچھٹاحصہ(16.666فیصد)والد(بچوں کےدادا)کاہوگا،باقی میراث مرحوم کےبیٹےبیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹےکوبیٹیوں کےمقابلےمیں دوگناحصہ دیاجائےگا،دونوں بیٹیوں میں سےہرایک کو کو(17.708فیصد)اوربیٹےکو(35.417فیصد)حصہ ملےگا۔
دکان اگرمرحوم کےقبضہ اورتصرف میں تھی تووالداپنےدعوی کوشہادتوں سےثابت کردےتودکان اس کی ہوگی،اگرشہادت اورثبوت نہیں ہیں تومرحوم کی بیوہ عدالت میں یوں قسم اٹھائےگی کہ اس دکان میں مرحوم کےوالدکی ملکیت کاہمیں علم نہیں ہے،قسم اٹھانےکےبعدمرحوم کےوالدکادعوی خارج ہوجائےگا۔
حوالہ جات
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
04/ذیقعدہ 1442 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |