021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کےدباؤ میں آکرتین طلاق والے طلاق نامے پر دستخط کرنےاوراس کے بعد بغیر حلالہ کےدوبارہ نکاح کاحکم
73313طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرانام عتیق الرحمن ہے اورمیں نے اپنے بیٹے جس کا نام اسد الرحمن ہے کی شادی تقریباً 10 سال پہلے کی تھی،دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہ رہے تھے، شادی کے تقریباًپانچ سال بعد میرا بیٹا کسی جہادی تنظیم میں شامل ہوگیا جس کی وجہ سےو ہ گرفتارہوگیا اورعدالت نے اس کو لمبی سزاسنادی اور اس وقت سے وہ جیل میں ہی ہے ،اس واقعہ کے بعد اس کی بیوی ہمارے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہی تھی ،جیل بھی ہمارے ساتھ اپنے شوہر سے ملنےجاتی تھی ،میرے بیٹے کے تین بچے ہیں ،ماشاء اللہ ۔ اب جب سے اس کی گرفتاری ہوئی ہے لڑکی کے ماں باپ اس پر مستقل دباؤ ڈالتےرہے کہ تم طلاق لیکر علیحدہ ہوجاؤ،لیکن لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ کو چار سال تک برداشت کیا ،کیونکہ وہ کسی بھی طرح  طلاق نہیں لینا چاہتی تھی ،آج سے تقریباًدو سال پہلے لڑکی کے ماموں بھی اس پر دباؤ ڈالنے لگے اوروہ مجبورہوکر اپنے سسرال سے اپنی ماں کے گھر چلی گئی ،پھر اس کے ماں باپ نے وہاں سے دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ اپنے  بیٹےسے طلاق دلواؤ ورنہ ہم کورٹ میں جائینگے ،کیس کرینگے اورسب کی بدنامی ہوگی ،میں نے اپنے بیٹے سے بات کی کہ لڑکی والے طلاق کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن اس نے انکار کردیا ،اس کے بعد بھی لڑکی کے ماں باپ نے دباؤ ڈالا،ہم نے پھر بیٹے سے بات کی لیکن وہ طلاق کے لیے تیارنہیں ہوا،اس کے بعد پھران لوگوں نے ڈرایا دھمکایا کہ ہم کیس کردینگے اورکورٹ کچہری کی باتیں ہوں گی ،ہم نے پھر اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ وہ کورٹ میں جائینگے، بدنامی ہوگی ، تم اس کو طلاق دیدو ،خیر بیٹا بڑی مشکل سے مانااورکہا کہ جس میں آپ لوگ خوش ہوں، میں بہت مجبورہوکرطلاق دے رہاہوں ،پھر لڑکی والےخود ہی طلاق نامہ بنواکرلے آئے اورکہا کہ سائن کرواکر دیدیں ،پھر ہم نےجیل جاکراس طلا ق نامہ پر مجبوراً سائن کروایا، اب تقریباً دو سال کے وقفہ کے بعد لڑکی اوراس کے گھر والے یہ چاہتے ہیں کہ بغیر حلالہ کےمیرے بیٹے سے اس لڑکی کا نکاح دوبارہ ہوجائے ۔ ہم آپ  لوگوں سے یہ رہنمائی چاہتے ہیں  کہ کیا شرعی اعتبارسے کوئی ایساطریقہ  ہے کہ حلالہ کے بغیر مذکورہ لڑکی کا نکاح دوبارہ میرےبیٹے کے ساتھ ہوجائے؟ اگر اس میں کوئی گنجائش نکلتی ہوتوبرائے مہربانی ہماری راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ زبردستی میں اگرطلاق نامے پرکوئی دستخط کردے اورزبان سے کچھ نہ کہے تووہ تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی مگرزبردستی سے مراد یہاں پر شرعی اکراہ ہےجس کی دو قسمیں ہیں ،ایک ملجئی جس میں جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیاجائےاوردوسری غیرملجئی جس میں مارپیٹ یا جیل میں ڈالنے کی دھمکی دیکرطلاق پر مجبورکیاجائے،دونوں قسموں میں دیگر شرائط کے علاوہ یہ بھی شرط ہے دھمکی دینے والاجو دھمکی دے رہاہےاس کا ضرربراہ راست مجبورکی ذات کوپہنچنےوالا ہو نہ کہ کسی اورکو، لہذا کسی رشتہ دارکو ضررپہنچانے کی دھمکی حنفیہ رحمھم اللہ کے نزیک شرعی اکراہ میں نہیں آتا اگرچہ اس سے انسان کو غم پہنچے۔

   مسئولہ صورت میں شرعی اکراہ متحقق نہیں ہوا، اس لیےشوہر پولیس کسٹڈی میں ہونے کہ وجہ سے محفوظ ہے،لہذاانہ تو اس کو قتل کیاجاسکتاہے اورنہ ہی اس کا کوئی عضوکاٹاجاسکتاہے، اسی طرح نہ تواس  کو ماراجاسکتاہے اورنہ ہی جیل میں ڈالنے کی دھمکی یہاں کام آئے گی کیونکہ وہ طویل عرصے کے لئے پہلے ہی سے جیل میں ہے نیز وہ ایک مجاہد آدمی ہے جو اس طرح چھوٹی موٹی دھمکیوں سےبالعموم مجبورنہیں ہوتا،لہذا مقدمہ بازی کی دھمکی اوربدنامی اس کے حق میں اکراہ نہیں،اس کے باوجود بھی اس کا طلاقِ طلاثہ کے طلاقنامے پر دستخط کرنا محض والدین کو راضی کرنے کےلیے تھا جیسےکہ خود اس نےسوال میں لکھاہے کہ" جس میں آپ لوگ خوش ہوں "لہذا شرعی اکراہ متحقق نہ ہونے کی وجہ سے یہ طلاقیں واقع ہیں اورچونکہ طلاقیں تین ہیں لہذا حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہےاور اب نہ رجوع ہوسکتاہے اورنہ حلالہ شرعیہ کے بغیر نکاح ۔

       مسئولہ صورت میں تو تین طلاق ہوچکی ہیں ،بالفرض اگرطلاق واقع نہ بھی ہوتی تب بھی اسد الرحمن کو چاہیےتھا کہ بیوی کواز خود آزاد کردیتا کیونکہ جب اس کی رہائٕی کا پتہ نہیں تھا توخوامخواہ بیوی کو انتظارکے عذاب میں ڈالے رکھنا مناسب بات نہیں،لہذا اس کو آزاد کرتا  تاکہ وہ  بچاری کہیں اور شادی کرتی اورعزت کی زندگی بسرکرتی ،اس کے بعد اگراسد الرحمن کی رہائی ہوجاتی  تووہ اپنے لیے دوسری شادی کرلیتا، اللہ تعالی سب کی ضرورتوں کو  پوراکرنے والےہیں۔تاہم پھر بھی اگرمسئولہ صورت میں لڑکی اپنی میاں سےخود جدائی  نہیں چاہتی تھی اورنہ ہی میاں اس کو چھوڑنا چاہتاتھا توایسی صورت میں لڑکی کے والدین کےلیے لڑکی پرطلاق کے مطالبے کاڈباؤ ڈالنا مناسب طرزِ عمل نہیں تھا۔

حوالہ جات
وفی الھندیة:
"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" .(35/5)
وفی الشامیة:
"ویقع طلاق کلّ زوج بالغ عاقل ولو عبداً أو مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على
التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية".﴿فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ: ۲۳۶، مطلب في الإکراہ، ط:سعید﴾
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 128):
الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به
مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا (فلو أكره بقتل أو ضرب شديد) متلف لا بسوط أو سوطين إلا على المذاكير والعين بزازية (أو حبس) أو قيد مديدين بخلاف حبس يوم أو قيده أو ضرب غير شديد إلا لذي جاه درر (حتى باع أو اشترى أو أقر أو آجر فسخ) ما عقد ولا يبطل حق الفسخ بموت أحدهما ولا بموت المشتري، ولا بالزيادة المنفصلة، وتضمن بالتعدي وسيجيء أنه يسترد وإن تداولته الأيدي (أو أمضى) لأن الإكراه الملجئ، وغير الملجئ يعدمان الرضا، والرضا شرط لصحة هذه العقود وكذا لصحة الإقرار فلذا صار له حق الفسخ والإمضاء (قوله: يعدمان الرضا) قال ابن الكمال في هامش شرحه، أخطأ صدر الشريعة في تخصيصه إعدام الرضا بغير الملجئ اهـ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 16 / ص 253)
والاكراه بحبس الوالدين والاولاد لا يعد إكراها لانه ليس بإكراه ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه.
وفی بدائع الصنائع:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة۔ (3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق) 
وفی الصحیح لمسلم
«إِنَّ الشَّيْطَانَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى المَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فِي النَّاسِ فَأَقْرَبُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ فِتْنَةً، يَجِيءُ أَحَدَهُمْ فَيَقُولُ مَا زِلْتُ بِفُلاَنٍ حَتَّى تَرَكْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا. فَيَقُولَ إِبْلِيسُ لاَ وَاللَّهِ مَا صَنَعْتُ شَيْئاً. وَيَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَـيْنَهُ وَبَـيْنَ أَهْلِهِ. قَالَ فَيُقَرِّبُهُ وَيُدْنِيهِ (ويلتزمه) وَيَقُولُ نِعَمَ أَنْتَ» رواه مسلم

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

1442/11/8ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب