021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبضے کے بغیر ہبہ معتبر نہیں
73384ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ! کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلم خان نامی شخص  کی اولاد میں 2 بیٹے اور 7 بیٹیاں  ہیں، مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنا ایک مکان، بیٹے ذیشان اور بیٹی روزینہ کو اسٹامپ پیپر کے ذریعہ ہبہ/بخشش/گفٹ  کے الفاظ سے دے دیا ،مگر رجسٹری یا انتقال  نہیں کروایا۔اب درج ذیل سوالاے کے جوابات درکار ہیں:

                  1۔اسلم خان مرحوم کا اس طور پر مکان دینا بطور وصیت شمار ہوگا یا مکمل انتقال جائیداد ؟

                  2۔ اگر وصیت شمار ہوگا تو کیا بچوں کے حق میں وصیت قابل قبول ہوگی؟

                  3۔اگر شرعا اس جائیداد کا صرف ان بچوں کو ملنا درست ہو تو کیا اس سے اسلم خان مرحوم گناہ گار ہوگا؟َ بقیہ بچوں کو محروم کرنے کی وجہ سے؟

                  4۔اب بقیہ بچوں  کا جائیداد کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

                  5۔نیز اب وہ مکان 53 لاکھ میں فروخت کیا جاچکا ہے ، برائے مہربانی اس کی شرعی تقسیم تمام ورثہ میں کیسے ہوگی؟

                  تنقیح:سائل سے معلوم کرنے پر یہ تفصیل سامنے آئی کہ والد اور تمام بچے اسی مکان میں رہائش پذیر تھے ،ان بچوں کو یہ مکان علیحدہ علیحدہ تقسیم کرکے قبضہ نہیں کروایا گیا ، بلکہ ان بچوں کو معلوم بھی نہیں ہے کہ ان کے والد نے یہ مکان صرف ان دو کو گفٹ کیا ہے۔نیز جس وقت والد نے بچوں کو ہبہ کیا تو وہ بالغ بھی تھے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اول تو باپ کا صرف دو بچوں ہی کو جائیداد دینا اس طور پر کہ بقیہ بچے محروم رہیں،جائز نہیں ہے ، نیز  اگر کوئی دے بھی تو شرعا ہبہ درست و مکمل ہونے کے لیے (اگر ہبہ بالغ بچوں کو کیا جارہا ہو تو)ضروری ہوتا ہے کہ وہ مکان  وغیرہ تقسیم کرکے دیا جائے اور جن کو ہبہ کیا جارہا ہے ان کو قبضہ بھی کروایا جائے ۔ لہذا صورت مسئولہ کے مطابق  نہ تو تقسیم کرکے دیا گیا اور نہ ہی ان کے قبضہ میں دیا گیا ، جبکہ بچے بھی بالغ تھے،لہذا یہ ہبہ درست نہ ہوا،مکان تمام بچوں میں میراث کے طور پر شرعی احکام کے مطابق تقسیم ہوگا۔رجسٹری یا انتقال کروایا بھی جاچکا ہوتا تو بھی یہی حکم  ہوتا۔

2۔ یہ وصیت نہیں ہے،اگر ہوتی بھی تو بچوں کے حق میں وصیت معتبر نہیں۔

3۔بعض بچوں کو محروم کرنا اور بعض کو عطا کرنا شرعا درست نہیں ، ایسا کرنے والا سخت گناہ گار ہوگا۔

4۔بقیہ بچوں کا جائیداد کا مطالبہ کرنا بالکل درست ہے ، شرعی طور پر ان کا پورا پورا حق ہے۔

5۔اگر مرحوم کے  ورثاء میں والدین،دادا ،دادی وغیرہ دیگر ورثاء میں سے کوئی موجود نہیں ہے اور صرف یہی ورثاء ہیں جو سوال میں درج ہیں  تو مرحوم کے ترکہ سے تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر ان کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں تو وہ  ادا کیے جائیں، پھر اگر انہوں نے کوئی جائزوصیت کسی غیر وارث کے لیے  کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے، پھر جو ترکہ بچ جائے   اس میں سے  ہر بیٹے کو 9لاکھ 63 ہزار  636.6 روپے اور ہر بیٹی کو  4 لاکھ 81 ہزار 818.18 روپے ملیں گے۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالیيُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.
                                                                                             (سورۃ النساء:11)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع: ومنها أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم، وتجوز فيما لا يقسم ،كالعبد والحمام والدن ونحوها.
    (بدائع الصنائع:6/119)
                                                                                                                            وفی الھندیۃ: وهبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة تجوز من الشريك ومن الأجنبي، كذا في  الفصول العمادية. . . .لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية.
                                                                                                                (الفتاوی الھندیۃ:4/377)
و فی الھندیۃ:وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي.
       (الفتاوی الھندیۃ:4/376 )
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول.(الدر المختار:5/688)
و فی مسند أحمد: عن أبی حمید الساعدی ،أن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قال:"لا یحل لامرئ أن یأخذ مال أخیہ بغیر حق، و ذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم .وفي رواية: لا يحل للرجل أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفس.  ( مسند أحمد:23605)
 

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

          11 ذوالقعدہ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب