021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آگے بیچ کر نفع کمانے کی غرض سے خریدی گئی دکانوں کی زکوۃ ادا کرنے کا حکم
73548زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں :

نعیم نے ایک پلازہ میں دو عدد دکانیں ایک کروڑ سترہ لاکھ میں بک کروائیں تاکہ آگے چل کر ریٹ بڑھ جائیں تو نفع حاصل کرے ۔ ان دکانوں میں نعیم کا کوئی تجارت کرنے کا ارادہ نہیں تھا ، صرف آگے فروخت کر کے نفع حاصل کرنا مقصود تھا ۔

دکانیں خریدنے کے چھ ماہ بعد لاک ڈاؤن ہو گیا پھر چھ ماہ کے بعد نعیم کی زکوۃ کی ادائیگی کی تاریخ آ گئی ۔ جس بروکر نے دکانیں دلوائی تھیں ، اس سے دکانوں کی موجودہ ویلیو معلوم کروائی تو اس نے پہلے تو یہ کہا کہ ابھی کوئی دکانیں لینے والا نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے مائنس ویلیو ہو ۔ کچھ کہہ نہیں سکتے  اس لیے احتیاطاً ایک کروڑ سترہ لاکھ کی ہی زکوۃ ادا کر دیں۔نعیم نے اپنی کاپی میں یہ زکوۃ 292500 لکھ لی تاکہ صورت حال واضح ہو جائے تو ادا کرے یا جب بھی دکانیں بک جائیں تو ادا کرے ۔ ایک سال گزرنے کے بعد پھر مذکورہ بالا صورت حال بروکر نے بتائی اور یہ بھی کہا کہ اب حالات بہتر ہیں ۔ ایک کروڑ پچیس لاکھ کی زکوۃ ادا کر دیں ۔ نعیم نے پھر سالانہ زکوۃ کے حساب میں 312500 لکھ لیے ۔

اب تیسرے سال میں زکوۃ کی ادائیگی کی تاریخ سے پہلے بروکر نے بتلایا کہ جس پلازہ میں آپ کی دکانیں بک تھیں۔ اس پلازہ کے پارٹنرز میں اختلاف ہو گیا ہے اور اس نے بہت کوشش کر کے آپ کی دکانیں ایک کروڑ پچیس لاکھ میں واپس کر کے نو ماہ کے بعد کا نقد رقم کا چیک لے لیا ہے ۔ اب آپ کی رقم نو ماہ کے بعد کلیر ہو گی تو لہذا ایک کروڑ پچیس لاکھ کی زکوۃ ادا کر دیں ۔

اس وقت تازہ صورت حال یہ ہے کہ نعیم کے پاس میزان بینک کا جنوری 2022 کی تین تاریخ کا چیک موجود ہے۔ مذکورہ تاریخ میں بروکر امید دلا رہا ہے کہ ان شاء اللہ آپ کی رقم ضرور مل جائے گی ۔ براہ کرم شرعی حکم ظاہر فرما دیں کہ نعیم اپنے گذشتہ دو سالوں کی زکوۃ کس طرح ادا کرے ۔ ابھی تک سوائے جنوری 2022 کے چیک کے اور کچھ ہاتھ میں نہیں ہے ۔ واضح ہو کہ دونوں دکانوں کی فائلیں چیک ملنے سے پہلے پہلے نعیم کے پاس تھیں ۔ اب بروکر نے فائلیں لے کر چیک دے دیا ہے ۔

تنقیح :سائل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دکانوں کا سودا 1 کروڑ 32 لاکھ میں ہوا تھا ، جس میں سے 1 کروڑ 17 لاکھ ادا کیے ۔ 15 لاکھ بعد میں ادا کرنے تھے جو بعد میں ادا نہیں کیے تھے کہ دکانیں دوبارہ فروخت کر دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ وہ دکان ، مکان ، پلاٹ یا فلیٹ جو آگے بیچ کر نفع کمانے کی غرض سے خریدا جائے ، وہ مال تجارت کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ایسے  مال تجارت کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زکوۃ کی ادا ئیگی کی تاریخ آنے پر اس کا مارکیٹ ریٹ لے لیا جائے ۔ جس قیمت پر وہ چیز فروخت ہو رہی ہو ، وہ ریٹ معلوم کریں ۔اسے اموال زکوۃ میں شامل کر کے اس کا ڈھائی فیصد ادا کر دیں ۔اگر خریدی گئی پراپرٹی کے کچھ بقایا جات ادا کرنا رہتے ہیں تو پہلے پراپرٹی کی قیمت فروخت سے ان بقایاجات کو منہا کریں پھر بقیہ رقم کا ڈھائی فیصد ادا کیا جائے ۔

صورت مسئولہ میں پہلے سال کورونا کی وجہ سے اگر واقعتاً دکانوں کی مارکیٹ ویلیو کم تھی اور غالب گمان یہ تھا کہ ان حالات میں بیچنے پر دکانوں کی اصل قیمت بھی نہیں ملنی ہے اور احتیاطاًدکانوں کی قیمت خرید کی بنیاد پر زکوۃ کی رقم نوٹ کر لی گئی تو گویا ان حالات میں وہی اس کی قیمت فروخت بھی تھی ، لہذا 1 کروڑ 32 لاکھ پر زکوۃ نوٹ کرنا درست تھا ۔ اس میں سے 15 لاکھ واجب الاداء قرض کو منہا کیا جائے گا اور ایک کروڑ 17 لاکھ کی زکوۃ ادا کی جائے گی ۔ اس حساب سے پہلے سال کی زکوۃ 292500 بنتی ہے  ۔

دوسرے سال حالات بہتر ہونے کے بعدجو دکانوں کی قیمت فروخت لگائی گئی تھی ، پراپرٹی کے بقایاجات اور پہلے سال کی واجب الاداء زکوۃ کو اس میں سے منہا کرنا ضروری ہے ۔دوسرے سال بروکر نے جب آپ کو 1 کروڑ 25 لاکھ کی زکوۃ ادا کرنے کا کہا تو گویا دکانوں کی مارکیٹ ویلیو 1 کروڑ 40 لاکھ تھی ۔ 15 لاکھ واجب الاداء قرض کوقیمت فروخت سے منہا کیا گیا تھا ۔ اس 1 کروڑ 25 لاکھ میں سے پہلے سال کی واجب الاداء زکوۃ کو منہا کیاجائے گا اور 1 کروڑ 22 لاکھ 7 ہزار پانچ سو ( 12207500)کی زکوۃ ادا کی جائے گی جوتقریباً 305188 بنتی ہے ۔

تیسرے سال زکوۃ کی ادائیگی کی تاریخ سے قبل بروکر وہ دکانیں 1 کروڑ 25 لاکھ میں فروخت کر چکا تھا، یعنی آپ نے دکانیں خریدنے کی مد میں 1 کروڑ 32 لاکھ میں سے جو 1 کروڑ 17 لاکھ ادا کیے تھے ، اس کے عوض آپ کو 1 کروڑ 25 لاکھ وصول ہوئے ۔اس رقم سے پہلے دو سال کی واجب الاداء زکوۃ کو منہا کر کے بقایا رقم کی زکوۃ ادا کی جائے گی ، گویا 11902312 کی زکوۃ ادا کی جائے گی جو تقریباً 297558 بنتی ہے ۔ تینوں سال کی زکوۃ درج ذیل ہے :

پہلے سال کی زکوۃ :292500

دوسرے سال کی زکوۃ :305188

تیسرے سال کی زکوۃ : 297558

یہ بات پیش نظر رہے کہ چونکہ آپ کو جو چیک دیا گیا ہے ، وہ جنوری 2022 کا ہے اور فی الحال آپ کو پیسے نہیں ملے ہیں  ،لہذا تیسرے سال کی زکوۃ (297558) کی ادائیگی میں آپ کو اختیار ہے ، چاہیں تو ابھی ادا کر دیں، چاہیں تو رقم کی وصولی پر ادا کریں ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 305)
(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 219)
وشرط فراغه عن الدين؛ لأنه معه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش، ولأن الزكاة تحل مع ثبوت يده على ماله فلم تجب عليه الزكاة كالمكاتب ولأن الدين يوجب نقصان الملك؛ ولذا يأخذه الغريم إذا كان من جنس دينه من غير قضاء، ولا رضا أطلقه فشمل الحال والمؤجل، ولو صداق زوجته المؤجل إلى الطلاق أو الموت وقيل المهر المؤجل لا يمنع؛ لأنه غير مطالب به عادة بخلاف المعجل وقيل إن كان الزوج على عزم الأداء منع، وإلا فلا؛ لأنه لا يعد دينا كذا في غاية البيان ونفقة المرأة إذا صارت دينا على الزوج إما بالصلح أو بالقضاء ونفقة الأقارب إذا صارت دينا عليه إما بالصلح أو بالقضاء عليه يمنع كذا في معراج الدراية
العناية شرح الهداية (2/ 169)
 والحاصل أن ما يدخل في ملك الرجل على نوعين: نوع يدخل بغير صنعه كالإرث. ونوع يدخل بصنعه وهو أيضا على نوعين: ببدل مالي كالشراء والإجارة وغيره كالمهر وبدل الخلع وبدل الصلح عن دم العمد، وبغير بدل كالهبة والصدقة والوصية، فالذي يدخل بغير صنعه لا يعتبر فيه نية التجارة مجردة بالاتفاق، والذي يدخل ببدل مالي يعتبر فيه نية التجارة بالاتفاق، والذي يدخل ببدل غير مالي أو بغير بدل فقد اختلف فيه على ما ذكرنا.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی 

26 ذو القعدۃ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب