021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
18سال تک میراث کی زمینوں سےبعض ورثہ﴿بھائی﴾ جوانتفاع کرتے رہے کیا اس میں بہنوں کا حصہ ہوگا؟
73609میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

2003کومیرے والد صاحب کا انتقال ہوا اوروراثت تقسیم نہیں کی گئی،اوربھائی ان 18سالوں میں میراث کی زمینوں سےفصلیں لیتے رہےاورکماتے رہے،بہنوں کو کبھی کچھ نہ دیا، تو آیاان18سالوں کا حساب بھائیوں کے ذمہ بنتاہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اٹھارہ سال تک مشترکہ موروثی زمینیں کاشت کرکےآپ کے بھائی جوفصلیں لیتے رہے اورکماتے رہےاس کاحکم یہ ہے کہ اگریہ کاشت کاری انہوں نے باقی ورثہ کی اجازت سے اپنے لیے کی تھی تو پھر ان اٹھارہ سالوں کی فصلیں اورکمائی ان کی ہے،باقی ورثہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں اوراگر باقی ورثہ کی اجازت کے بغیروہ یہ موروثی زمینیں اپنے لیے کاشت کرتے رہے ہیں تو پھر اس کا حکم مغصوبہ زمین کاشت کرکے اس سےحاصل ہونے نفع کی طرح ہوگا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ارضِ مغصوبہ سے حاصل شدہ نفع غاصب کاہی ہوتاہے۔ جیساکہ رد المحتار کی آنے والی عبارت سے معلوم ہوتا ہے، لیکن اس میں سے فقط اپنے حصّہ وراثت کے مطابق کاشت کرنے والے بھائیوں کے لیے  حلال ہوتاہے اور باقی نفع خبیث ہوتاہے، جسے یا تو وہ ورثہ کو ان کے حصوں کے بقدر دےگا یا پھرمحتاجوں پرصدقہ کرےگا۔

حوالہ جات
وفی رد المحتار :
” أن الغلة للغاصب عندنا،لأن المنافع لاتتقوم إلابالعقدوالعاقدهوالغاصب فكان هو أولى ببدلها،ويؤمر أن يتصدق بهالاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير“( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الغصب ، جلد 9 ، صفحہ 317 ، مطبوعہ کوئٹہ )
وفی امداد الاحکام ( 3 / 602)
ایک وارث کے مشترکہ ترکہ میں تجارت کرنے کی ایک صورت کا حکم
الجواب جس شریک نے مضاربت پر روپیہ دیا ہینفع مقررہ اس کی ملک تو ہو گیا لیکن اس میں سے فقط اپنے حصّہ وراثت کے مطابق اس کو حلال ہے اور باقی نفع خبیث ہے۔اس لئے دوسرے ورثاء کو بقدر ان کے حصص دے دے یا محتاجوںکو دے دے۔
و فی العالمگیریۃ(ج؍۵،ص؍۱۸۴)
لو تصرف أحد الورثۃ فی الترکۃ المشترکۃ وربح فاالربح کلہٗ للمتصرف وحدہ ، کذا فی الغیاثیۃ وفیہ ایضاً بعد اسطرٍ سئل أبو بکر عن شریکین جن أحدہما وعمل الآخر بالمال حتی ربح أو وضع ، قال : الشرکۃ بینہما قائمۃ إلی أن یتم إطباق الجنون علیہ ، فإذا قضی ذلک تنفسخ الشرکۃ بینہما ، فإذا عمل بالمال بعد ذالک فالربح کلہ للعامل والوضیعۃ علیہ وہو کالغصب بمال المجنون فیطیب لہ من الربح حصۃ مالہ ولا یطیب لہ من مال المجنون فیتصدق بہ کذا فی المحیط۔ قال الشامی: وفی القھستانی ولہ أن یؤدیہ الی المالک ویحل لہ التناول لزوال الخبث۔
وفی جامع الفصولين (۲؍۱۴۵)
غاب أحد شريكي الدار فأراد الحاضر أن يكسنها رجلاً أو يؤجرها لا ينبغي أن يفعل ذلك ديانة إذ التصرف فيما بيده لو لم ينازعه أحد فلو آجر وأخذ الأجر يرد على شريكه نصيبه لو قدر وإلا تصدق به لتمكن الخبث فيه بحق شريكه فصار كغاصب آجر يتصدق الأجر أو يرده على المالك وأما نصيبه فيطيب له إذ لا خبث فيه.
فی انعام الباری (ج:۶ ص:۴۵۶)
اور یہ معاملہ میراث میں بکثرت پیش آتاہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہ اپنے دکان چھوڑ گیا اب بکثرت ایسا ہوتاہے کہ اس دکان میں تصرف کرے والا ایک ہوتاہے جو اس کو چلا تا رہتاہے اور نفع آنا رہتاہے اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ نفع کس کا ہے آیا اس کے اندر سارے روثاء شریک ہوں گے یہ صرف اسی کا ہوگا جس نے اس میں عمل کرکے اس کو بڑاھایا عام طور سے فقہاء کا کھنا یہ ہے کہ چونکہ اس نے یہ عمل ورثاء کی اجازت کے بغیر کیا ہے لہذا یہ کسب خبیث ہے اس لئے اس کسب خبیث کو صدقہ کرنا ہوگا بعضی حضرات یہ فرماتے ہیں اور امام بخاری کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتاہے کہ جو کچھ بھی نفع ہوا وہ اصل مالک کا ہے لہذا اورثت والے مسئلے میں جو کچھ بھی نفع حاصل ہوگا اس میں تمام ورثاء شریک ہوگے الی قولہ فی صفحہ 456لیکن متاخرین حنفیہ میں سے علامہ رافعی نے یہ فرمایا کہ چونکہ خبث صاحب مال کے حق کی وجہ سے آیاہے لہذا اگر وہ صدقہ کرنے بجائے صاحب مال کو دیدے تب بھی صحیح ہوجائے گا چنانچہ وراثت والے مسئلے میں اگر ایک وارث متصرف ہوگیا جبکہ حق سارے ورثاء کا تھا تو اس میں اصل حکم تو یہ ہے کہ جو کچھ ربح حاصل ہوا وہ تصدق کرے لیکن اگر تصدق نہ کرے بلکہ ورثاء کو دیدے تو اس کا ذمہ ساقط ہوجائے گا بلکہ یہ زیادہ مناسب ہے تا کہ اس سے تمام ورثاء فائدہ اٹھالیں۔
وفی امداد الاحکام( ج:۳ ص:۳۱۹-۳۲۲)
اگر ہم یہ کہیں کہ واوث کا تصرف اجنبی کے مال میں تصرف کے طرح ہے اور یہ ناجائز ہے تو اس کا جواب بھی یہی ہوگا کر اجنبی کے مال میں تصرف کرکے جو نفع کمایا وہ فقہاء کے ہاں واجب التصدق ہے اور جب مالک معلوم ہو تو مالک کو پہنچا دے اور ورثاء معلوم ہے لہذا شرعی حصوں کے مطابق نفع بھی اصل مالک کے ساتھ تقسیم ہوگا۔

.

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب