021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچپن میں کتابیں چوری کرنےاوراسکول کی رقم استعمال کرلینے کاحل
73675حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

۱۔1985/86میں جب میں12یا 13سال کالڑکاتھاتو بچوں کی کہانیاں پڑھنے کوبہت شوق تھا،جن دو(02)دکانوں سےمیں کتابیں خریدتاتھا،وہیں سےچپکےسےبچوں کی کہانیوں کی کتابیں چرابھی لیتاتھا،میں نےاندازاً60سے70کتابیں دونوں دکانوں سےچرائی ہونگی،جن کی مالیت اس وقت کےمطابق 300سے 400روپےٹوٹل اورآج کےحساب سےتقریباً4000سے5000کےدرمیان ہوسکتی ہیں،میں نے 1985/86میں ان کواپنی لائبریری کی زینت بھی بنایااورکرائےپربھی لوگوںکو پڑھنے کے لیے دیں۔اس وقت میں ایک دن کے لئے پڑھنے کا لوگوں سے 25پیسے یا 50پیسے فی دن کا لیا کرتا تھا۔1990/91 میں،میں نے لائبریری فروخت کردی تھی،ایک لمبےعرصے کے بعد مجھے اپنی ان لڑکپن کی چوریوں ک احساس ہوا اور کئی سالوں سے ان دکانوں کے مالکان کی تلاش میں ناکامی کے بعد آپ سے اس مسئلے کا حل معلوم کرنا چاہتا ہوں، تاکہ لڑکپن کے گناہوں کے عذاب سے اللہ تعالیٰ مجھے محفوظ فرمائے آمین۔

۲۔جب میں گورنمنٹ اسکول میں نویں کلا س میں آیا تو پڑھائی میں بہتر ہونے کی وجہ سے ٹیچر نے مجھے لڑکوں کا مانیٹر بنادیا۔ اس وقت کے کلاس ٹیچرکے کہنے پر جو لڑکے چھٹی  کرجاتے تھے یا لیٹ آتے تھے ان سے ٹیچر کی طرف سے میں (مانیٹر) 25پیسے یا 50پیسے جرمانہ وصول کرتا تھا،نویں اور دسویں کلا س دونوں میں وصول کیا، وہ میرے پاس ہی گھرمیں جمع ہوتے رہے اور نہ ٹیچر نے کبھی واپسی کا کہا اور نہ میں نے واپس کیا۔ کالج سے فارغ ہونےکے بعد اپنی الماری کی صفائی کرتے ہوئے یہ سکے مجھے ملے جن کو اس وقت میں نے اپنی ذات پر استعمال کرلئے، ان کی مالیت تقریباً 180سے 200روپے ہوگی، اب اس کا بھی حل بتائیں،اسکول اپنی جگہ پر ہوسکتا ہے،میں نے چیک نہیں کیا۔یہ مسئلہ ابھی آپ کو اپنا پہلا مسئلہ لکھتےہوئے یاد آیا،میں اب کسی اور شہر میں سیٹل ہوں،برائےمہربانی مجھے دونوں مسئلوں کا حل بتائیں،تاکہ میں اللہ مجھ پر اپنا کرم رکھے۔ انتہائی مشکوررہوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔اگر یہ کتابیں دوکاندار نے کرایہ پر چلانے کے لیے رکھی تھیں تواصولی طور پرچرائی گئی کتابوں کی  چرانے کےوقت  کی قیمت کے اعتبارسےقیمت لوٹانا لازم ہے،لیکن چونکہ  جس دن کتابیں چوری کی تھیں اس وقت کی قیمتوں میں اور آج کی قیمتوں میں غیر معمولی فرق ہے،لہذابہتر یہ ہے کہ اس صورت  میں  موجودہ قیمت کے جس قدر زیادہ قریب ہوسکے، اتنی قیمت دی جائے،نیز جس قدر منافع ان  کتابوں سے کمایا وہ بھی(اگر معلوم ہو تو،ورنہ اندازہ کر کے)لوٹایا جائے،اوراگریہ کتابیں مالک نے کرایہ پر چلانے کے لیے نہ رکھی ہوں توصرف  مذکور تفصیل کے مطابق قیمت لازم دینی پڑے گی،اگر نہ وہ مالکان معلوم ہوں اور نہ ہی ان کے ورثہ تک اس قیمت کو لوٹانا ممکن ہو تو ایسی صورت میں اس قدر رقم مالکان کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔

۲۔جس قدر رقم جن جن لڑکوں سے لی گئی اگر وہ معلوم ہوں تو انہیں یا ان کے ورثہ کو اس قدر رقم لوٹا دی جائے ورنہ ان کی طرف سے صدقہ کر دی جائے، اور اب تک کی کوتاہی پر توبہ واستغفار بھی کیا جائے۔

حوالہ جات
۱۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 183)
 (وتجب القيمة في القيمي يوم غصبه) إجماعا
 (قوله يوم غصبه إجماعا) هذا في الهلاك كما هو فرض المسألة. قال القهستاني: أما إذا استهلكت فكذلك عنده وعندهما يوم الاستهلاك اهـ. وفي جامع الفصولين: غصب شاة فسمنت، ثم ذبحها ضمن قيمتها يوم غصب لا يوم ذبحه عنده وعندهما يوم ذبحه، ولو تلف بلا إهلاكه ضمن قيمتها يوم غصب اهـ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 207)
(أو معدا) أي أعداه صاحبه (للاستغلال) بأن بناه لذلك أو اشتراه لذلك۔۔۔۔بقي لو آجر الغاصب أحدها فعلى المستأجر المسمى لا أجر المثل ولا يلزم الغاصب الأجر بل يرد ما قبضه للمالك أشباه وقنية وفي الشرنبلالية وينظر ما لو عطل المنفعة هل يضمن الأجرة كما لو سكن
أي لو عطل غاصب منفعة أحد هذه الثلاثة ولم يستوفها فهو معلوم من عبارة المصنف وصاحب الدرر؛ لأن استثناء هذه الثلاثة من قوله سابقا استوفاها أو عطلها يفيد أنها مضمونة بالاستيفاء أو التعطيل تأمل.
۲۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 283)
(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون (في المعقبي) مجتبى.
 (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.
مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۴ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب