021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دفع ہو/ تم آزاد ہو کہنے اوراس کے بعد طلاق صریح کا حکم
71588طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

بعد سلام عرض یہ ہے کے میری شادی 24 فروری2017 میں ہوئی، شادی کے ایک سال بعدہم میاں بیوی کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے پھر دو سال گزرنے کے بعد یہ اختلافات زیادہ ہو گئے، اور پھر مارچ 2019 کو لڑائی کے درمیان میری بیوی مطالبہ طلاق کرنے لگی تو میں نے جواب میں اسے کہا کے"دفع ہو/تم آزاد ہو"یہ جملہ کہا۔اسکے بعد بھی ہم ساتھ رہتے رہے۔ پھر کافی وقت گزرنے کے بعد 23 سپتمبر 2020 کولڑائی کے درمیان شدید غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی۔

مفتی صاحب پوچھنا یہ تھا کے "دفع ہو /تم آزاد ہو " سے بھی طلاق بائن ہو جاتی ہے ۔
اگر تو میری طلاق بائن ہوگئی تھی پھر جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کےبعد جو سری الفاظ میں طلاق دی وہ واقعہ ہوئی تھی یا نہیں ۔یا پھر ہمارا نکاح طلاق بائن سے ٹوٹ چکا تھا ۔برائےمہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مذکورہ میں بیوی کےمطالبہ طلاق کےموقع پر "دفع ہو۔" کے لفظ کہنے سےاگراس کےمطالبہ کو رد کرنا مقصد نہ ہوتو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوچکی،اس لیے کہ یہ  کنایات طلاق کے الفاظ میں سے ہے۔(فتاوی فریدیہ: ج۵،ص۳۳۷،۳۴۹) اور اس کے بعد تم آزاد ہو،سے طلاق بائن ہونے کی وجہ سے لاحق نہیں ہوگی اوراور اگر"دفع ہو۔" کہنے سے مقصد اس کے مطالبہ کا رد کرنا تھا تو اس کے بعد دوسرے لفظ "تم آزادہو۔" سےمذاکرہ طلاق کے قرینہ کی وجہ سے طلاق بائن واقع ہوچکی اورجب عورت بائن ہوچکی تو اس کے بعد بغیر نکاح کے ساتھ رہنا جائز نہ تھا ،لہذا جس قدر مدت بغیر تجدید نکاح ساتھ رہے، اس سے توبہ واستغفارضروی ہے اور چونکہ نکاح باقی نہ تھا ،لہذا مزید تین طلاقیں واقع نہیں ہوئیں ، لہذااب جانبین کی رضامندی سے فوری نکاح جدید ضروری ہے اور آئندہ کے لیے آپ کو صرف دو طلاق کا حق رہے گا ،یعنی صرف دو طالاق دینے سے ہی بیوی ہمیشہ کے لیے آپ پر حرام ہوجائے گی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 387)
ولو قال لامرأته: " دور باش از من " يقع إذا نوى ولو قال " بيزارم اززن وخواسته آن " إن نوى طلاقا يكون طلاقا وإلا فلا هكذا في التتارخانية والله أعلم بالصواب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 298)
(ف) الكنايات (لا تطلق بها)قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب،فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا،
(قوله من الغربة) بالغين المعجمة والراء راجع للأول، قوله أو من العزوبة بالمهملة والزاي راجع للثاني، من عزب عني فلان يعزب: أي فمعناه أيضا تباعدي ح بزيادة ففيه ما في اخرجي أيضا من الاحتمالين
(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 300)
(ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة ولذا تقبل بينتها على الدلالة لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها عمادية، ثم في كل موضع تشترط النية فلو السؤال بهل يقع بقول نعم إن نويت، ولو بكم يقع بقول واحدة ولا يتعرض لاشتراط النية بزازية فليحفظ.
(قوله يتوقف الأول فقط) أي ما يصلح للرد والجواب لأن حالة المذاكرة تصلح للرد والتبعيد كما تصلح للطلاق دون الشتم وألفاظ الأول كذلك، فإذا نوى بها الرد لا الطلاق فقد نوى محتمل كلامه بلا مخالفة للظاهر فتوقف الوقوع على النية، بخلاف ألفاظ الأخيرين فإنها وإن احتملت الطلاق لكنها لا تحتمل ما تحتمله المذاكرة من الرد والتبعيد، فترجح جانب الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عنه فلذا وقع بها قضاء بلا نية.۔۔۔۔۔۔والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۵جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب