021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹنگ کر کے زمین کی خرید و فروخت کاحکم
74709خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی کمپنی یاکوئی شخص زمین خرید کر اس میں پلاٹنگ کرتا ہے۔پھر ہر پلاٹ کے لیے ایک  فائل  مختص کر دیتا ہےاور فائل کو مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے۔اب وہ فائل زمین کی نمائندگی کرتی ہے،لیکن اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ فلاں  زمین کے اندر کوئی  بھی ساڑھے بارہ سو فٹ کا پلاٹ ہے جو کہ متعین نہیں۔

انسٹالمنٹ بیسز پہ پہلے ڈاؤن پیمنٹ  کے تحت اور پھر ہر مہینے قسطوں کے طور پرزمین بیچ دی جاتی ہے۔تقریبا چار،ساڑھے چار سال کے بعد  زمین فائلر کے نام ہو جاتی ہے اور متعین بھی  ہو جاتی ہے۔اس چار ،ساڑھے  چار سال کے عرصے میں  جب کہ قسطوں پر زمین خریدی جا رہی ہوتی ہے ،مالک اور گاہک دونوں کو متعین جگہ (پلاٹ)معلوم نہیں ۔

اس صورت  حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آگاہ فرمائیےکہ کیا یہ بیع معدوم تو نہیں اور کیا اس طرح خریدوفروخت درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا صورت میں مشاع  کی بیع ہے جس میں جگہ  متعین تونہیں ہے،لیکن ایسی جہالت نہیں ہے   جو کہ جھگڑے کا سبب بنے،بلکہ وہ دونوں  مل کر متعین کر دیتے ہیں اور گاہک بھی اس پر راضی ہوتا ہے۔ اس لیے اس طرح خریدوفروخت کرنا درست  ہے۔

اگر فروخت کی جانے والی زمین کی حدود اربعہ وضاحت کے ساتھ بیان کر دی جائیں  اور وہ غیر مبیع سے ممتاز ہو جائے تو عقد درست ہے۔اس لیے کہ خارج میں پلاٹنگ کا ہونا ضروری نہیں ،بلکہ پیپر ورک میں کاغذ پر نقشہ بنا  کر ضروری تحدیدات کر دی جاتی ہیں،کافی ہے۔(تبویب)

حوالہ جات
قال جماعۃ من العلماء :وفسد بيع عشرة أذرع من دار أو حمام عند الإمام ،وقالا :يجوز إذا كانت الدار مائة .ولا فرق عنده بين أن يقول :من مائة ،أو لا في الأصح ،كذا في النهر الفائق .واختلف المشايخ على قولهما فيما إذا لم يسم جملتها ،والصحيح الجواز ،كذا في البحر الرائق .قال شيخ الإسلام:وأجمعوا على أنه لو باع سهما من عشرة أسهم من هذه الدار أنه يجوز، ولو قال ذراعا من هذه الدار إن عين موضعه بأن قال :من هذا الجانب إلا أنه لم يميزه بعد ،فالعقد منعقد غير نافذ حتى لا يجبر البائع على التسليم،وإن لم يعين موضع الذراع ،فعلى قول أبي حنيفةرحمه الله تعالى : لا يجوز أصلا، وعلى قولهما:يجوز ،وتذرع الدار،فإن كانت عشرة أذرع صار شريكا بمقدار عشر الدار.
(الفتاوی الھندیۃ:3/122(
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(وقد بيع عشرة أذرع من مائة ذراع من دار) أو حمام وصححاه وإن لم يسم جملتها على الصحيح؛ لأن إزالتها بيدهما (لا) يفسد بيع عشرة (أسهم) من مائة سهم اتفاقا؛لشيوع السهم لا الذراع، بقي لو تراضيا على تعيين الأذرع في مكان لم أره، وينبغي انقلابه صحيحا لو في المجلس ولو بعده ،فبيع بالتعاطي ،نهر.(رد المحتار:7/71)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله: (من دار أو حمام) أشار إلى أنه لا فرق بين ما يحتمل القسمة وما لا يحتملها ،ح. قوله: (وصححاه إلخ) ذكر في غاية البيان نقلا عن الصدر الشهيد، والإمام العتابي أن قولهما بجواز البيع إذا كانت الدار مائة ذراع، ويفهم هذا من تعليلها أيضا حيث قالا: لأن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار ،فأشبه عشرة ‌أسهم من مائة سهم، وله أن البيع وقع على قدر معين من الدار، لا على شائع؛ لأن الذراع في الأصل اسم لخشبة يذرع بها، واستعير ههنا لما يحله وهو معين لا مشاع؛ لأن المشاع لا يتصور أن يذرع، فإذا أريد به ما يحله، وهو معين لكنه مجهول الموضع بطل العقد ،درر.
قلت: ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة ،فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد، كبيع بيت من بيوت الدار،كذا في الكافي، عزمية). رد المحتار:7/71)

شکیل احمد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

/28ربیع الثانی1443/ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

شکیل احمد بن محمد اسماعیل

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب