021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دینی خدمت سرانجام دینے والے کامشاہرہ کتناہو؟
74816اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسجد ،مکاتب اور مدارس میں جو علماء خدمت کر رہے ہیں ان کو اس زمانہ کے اعتبار سے کتنی تنخواہ دینی چاہیے؟قیمت بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مساجد اور ائمہ مساجد، دونوں مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں۔مساجد میں باصلاحیت افراد کاتقرر،نیز ان کی صلاحیتوں اورمعاشی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے معقول وظیفہ مقرر کرنااورپھروقتافوقتاًمہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب اضافہ کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

مساجد سے منسلک افراد کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے ،بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی  ضرورت کو پوراکررہے ہیں ،موسم  کے تفاوت اور حالات کی تفریق سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں ،لہذا ان سے متعلق یہ جذبہ بھی سامنے رکھاجائے،نیز  ان افراد کے  معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا  یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

امام کو اتنی معقول تنخواہ دیں کہ اس کی ضروریات بآسانی پوری ہوسکیں اوراسے معاشی تنگی دورکرنے کے لیے دردر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔عموما پورے ملک میں اور بالخصوص دیہاتوں میں ائمہ مساجد کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں،جن میں کوئی شخص ضروریات زندگی پوری  نہیں کرسکتا ،مہینے بھر کے کھانے پینے کے اخراجات ،لباس ،جوتے ،بیماریوں کا علاج ،بچوں کی تعلیمی فیسیں،سفر،شادی وغمی ،یہ سب ضروریات جیسے معاشرے کے دوسرے افراد کی ہیں،ایسے ہی امام ،قاری اور مدرس کی بھی ہیں،اربابِ مدارس اور مساجد کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے مدرسین اور ائمہ کرام کی اتنی مناسب تنخواہیں رکھیں کہ وہ وقار اور عزتِ نفس کی حفاظت کے ساتھ یکسوئی اور دلجمعی سے ان اہم دینی خدمات کو جاری رکھ سکیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم ﷺ سے حدیثِ قدسی روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اللہ تعالی فرماتے ہیں: قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ان میں ایک وہ شخص ہے جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے، مگر مزدوری (تنخواہ)پوری نہ دے۔

مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے، بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے ۔

فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے تصریح کی ہے ۔

ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اﷲ علیہ حسیباً"۔

 یعنی متولی کو لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے ۔  

حوالہ جات
وفی صحیح البخاری(3/82حدیث:2227):
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ: ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ "
وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (5/ 124):
(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) وهو مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم وكان لهم عطيات في بيت المال وافتقاد من المتعلمين في مجازاة الإحسان بالإحسان من غير شرط مروءة يعينونهم على معاشهم ومعادهم وكانوا يفتون بوجوب التعليم خوفا من ذهاب القرآن وتحريضا على التعليم حتى ينهضوا لإقامة الواجب فيكثر حفاظ القرآن، وأما اليوم فذهب ذلك كله واشتغل الحفاظ بمعاشهم وقل من يعلم حسبة ولا يتفرغون له أيضا فإن حاجتهم تمنعهم من ذلك فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بجواز ذلك لذلك ورأوه حسنا، وقالوا الأحكام قد تختلف باختلاف الزمان.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 219):
وعلى الإمام أن يجعل لكل نوع بيتا يخصه وله أن يستقرض من أحدها ليصرفه للآخر ويعطي بقدر الحاجة والفقه والفضل فإن قصر كان الله عليه حسيبا زيلعي.
 (قوله ويعطي بقدر الحاجة إلخ) الذي في الزيلعي هكذا، ويجب على الإمام أن يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا. اهـ. وفي البحر عن القنية: كان أبو بكر - رضي الله تعالى عنه - يسوي في العطاء من بيت المال، وكان عمر - رضي الله تعالى عنه - يعطيهم على قدر الحاجة والفقه والفضل، والأخذ بهذا في زماننا أحسن فتعتبر الأمور الثلاثة اهـ أي فله أن يعطي الأحوج أكثر من غير الأحوج، وكذا الأفقه والأفضل أكثر من غيرهما وظاهره أنه لا تراعى الحاجة في الأفقه والأفضل، وإلا فلا فائدة في ذكرهما، ويؤيده أن عمر - رضي الله تعالى عنه - كان يعطي من كان له زيادة فضيلة، من علم، أو نسب أو نحوه ذلك أكثر من غيره،۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

03/جمادی الاولی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب