021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایزی پیسہ سے متعلقہ مسائل
74759اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ امید ہے آپ حضرات بخیر و عافیت ہونگے کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں : کہ موبی کیش ،ایزی پیسہ وغیرہ میں ایک مرجنٹ اکاؤنٹ ہوتا ہے اور ایک کسٹمر اکاؤنٹ. دونوں اکاؤنٹ سے کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ میں رقوم کی منتقلی فری ہوتی ہے کمپنی ایک روپیہ چارجز بھی نہیں کاٹتی، لیکن کسٹمر اگر رقم کیش کی صورت میں نکلوانا چاہتا ہے تو اس کو مرجنٹ اکاؤنٹ والے کے پاس جانا ہوگا، اور مرجنٹ (دکاندار) کسٹمر اکاؤنٹ سے اپنے مرجنٹ اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کرکے کسٹمر کو نقدی کی صورت میں دیتا ہے، اس طرح رقم نکلوانے پر کمپنی کسٹمر سے ہزار روپے پہ بیس روپے چارجز کاٹتی ہے جس میں سے پانچ روپے مرجنٹ کو بطور کمیشن دیتی ہے ۔ لیکن اب بعض دکاندار لوگ زیادہ کمانے کے لیے یہ طریقہ اپناتے ہیں کہ جب کسٹمر رقم نکلوانے کے لیے ان کے پاس آتا ہے تو کسٹمر کے اکاؤنٹ سے رقم اپنے مرجنٹ اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کرتا بلکہ اپنے کسی دوسرے کسٹمر اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر لیتا ہے اور کسٹمر سے ہزار روپے پر بیس روپے کمیشن وصول کر لیتا ہے حالانکہ کسٹمر کے اکاؤنٹ سے اپنے "کسٹمر اکاؤنٹ" میں ٹرانسفر کرنے پر کوئی خرچ نہیں آیا کیونکہ کمپنی کی طرف سے یہ ترسیل مفت ہے، ہاں اگر کسی دن دکاندار اپنے اسی کسٹمر اکاؤنٹ سے رقم کیش کی صورت میں نکلوائے گا تو بیس روپے کٹوتی ان سے بھی ہوگی لیکن دکاندار ایسا کبھی کرتا  نہیں ،بلکہ اپنے اس کسٹمر اکاؤنٹ سے رقم اپنے مرجنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کر لیتا ہے، اب اسی مرجنٹ اکاؤنٹ سے کسی دوسرے کسٹمر کے لیے رقوم نکالتا ہے تو کمپنی کی طرف سے  پانچ روپے  کمیشن  الگ سے مل جاتا ہے ۔ اب جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا دکاندار کا کسٹمر کے اکاؤنٹ سے اپنے کسٹمر اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے پر بیس روپے کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ خالد نے اپنی ضرورت کے لیے مثلا موبی کیش کا کسٹمر اکاؤنٹ بنایا ہے اب کوئی بندہ آتا ہے جس کے اکاؤنٹ میں پیسے ہوتے ہیں لیکن اس کو نقد کی ضرورت ہوتی ہے تو خالد اس بندے کے اکاؤنٹ سے رقم اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر کے اس کو نقد رقم اپنے جیب سے دے دیتا ہے لیکن ہزار پہ بیس روپے کٹوتی کے ساتھ ۔ اب کیا خالد کے لیے اس طرح بیس روپے کٹوتی کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ المستفتی : عبد الحفيظ ڈیرہ اسماعیل خان۔

وضاحت از  نمبر۱:   معلومات حاصل کرنے پر   پتہ چلا کہ   کچھ لوگ ایسا محض زیادہ نفع کمانے کےلیے  کرتے ہیں،   کہ   "ریٹیلر اکاونٹ" میں لمٹ کی موجودگی کے باوجود  وہاں  رقم بھیجنے کے بجائے اپنے کسٹمر اکاونٹ میں بھیج دیتے ہیں ، اور پھر وہاں سے رقم بینک اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں ، اس کے بعد یا تو بینک سے رقم نکال لیتے ہیں ، یا بینک سے  اس رقم کو اپنے ریٹیلر اکاونٹ میں منتقل کر دیتے ہیں، اور اس  دوران  کسی بھی مرحلہ میں ان کے پیسوں سے کٹوتی  نہیں ہوتی۔( جیساکہ سوال   نمبر ۱ سے معلوم ہوتا ہے)

نیز ریٹیلر اکاونٹ بنانے  کا مطلب ہی دوکاندار کا کمپنی یا فرنچائز  سے یہ معاہدہ کرنا ہے کہ  وہ لوگوں  کو پیسے نکال کر دینے اور ایک جگہ سے   دوسری  جگہ منتقل کرنے میں ریٹیلر  اکاونٹ میں موجود لمٹ کی حد  تک  اسی  اکاونٹ کا استعمال کریں گے۔

وضاحت از  نمبر  ۲: کچھ دکانداروں کا کہنا یہ تھا کہ وہ ایسا اس وقت کرتے ہیں  جب ریٹیلر اکاونٹ  سے پیسے  نکالنے اور  منتقل کرنے کی لمٹ ختم ہو جاتی ہے ، یا پھر کوئی کسٹمر ایسا آ جاتاہے جس کی بائیو میٹرک  تصدیق نہیں ہو پا رہی ہوتی ، اور ریٹیلر اکاونٹ سے اس کے لیے پیسے نکالنا مشکل  ہو رہا ہوتا ہے، لہذا اپنے کسٹمر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے وہ اس کے اکاونٹ سے پیسے اپنے کسٹمر اکاونٹ میں بھیج دیتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(۱)۔۔وضاحت  نمبر  ۱  میں بیان کی گئی   معلومات  اگر درست ہیں  تو پھر مذکورہ صورت میں  دکاندار  کے لیے  ریٹیلر اکاونٹ  کے بجائے  اپنے کسٹمر اکاونٹ میں  رقم بھیجنا جائز نہ ہوگا ،کیونکہ  یہ صورت   کمپنی سے کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ سود حاصل کرنے کا ذریعہ  بھی ہے، اس لیے شرعا ریٹیلر کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ وضاحت  نمبر ۲  میں بیا ن کی  گئی معلومات کو مد نظر رکھا جائے تو پھر یہ صور ت  جائز اور درست ہے ،  کیونکہ  اس صورت میں نہ کسی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی  یہ طریقہ   سود حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اور اضافی وصول کی جانے والے والی رقم سروس چارجز  یعنی رقم مہیا کرنے والے کی اجرت ہو گی۔

(۲)۔۔ خالد کا اپنے موبی کیش  اکاونٹ میں  گاہک کے اکاونٹ سے  رقم وصول کر کے اسے نقدی مہیا کرنا اور اس پر طے شدہ اجرت ( ہزارروپے پر بیس روپے) لینا جائز ہے، البتہ اگر خالد نے  وصول کی گئی رقم کیش کرائے بغیر ہی  اپنے اکاونٹ سے  براہ راست کسی مقصد کے لیے استعمال کرنی ہے، یا پھر  وہ رقم کسی ایسے ذریعہ سے کیش  کروانی   ہے (مثلا بینک )جہاں سے کیش  کروانے کی صور ت میں رقم میں کٹوتی  نہیں کی جاتی ، تو پھر اس کے لیے مناسب یہ ہے  وصول کی گئی رقم  میں سے حقیقی اخراجات سے  زائد کی  کٹوتی نہ کرے۔

حوالہ جات
[الإسراء: 34]
{وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا }
سنن الدارمي (1/ 246)
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ «إِنَّا لَا نَدْرِي، لَعَلَّنَا نَأْمُرُكُمْ بِأَشْيَاءَ لَا تَحِلُّ لَكُمْ، وَلَعَلَّنَا نُحَرِّمُ عَلَيْكُمْ أَشْيَاءَ هِيَ لَكُمْ حَلَالٌ، إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ [ص:247] مِنَ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُبَيِّنْهَا لَنَا حَتَّى مَاتَ، فَدَعُوا مَا يَرِيبُكُمْ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكُمْ»
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 64)
(الأجراء على ضربين: مشترك وخاص، فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص) كأن استأجره ليرعى غنمه شهرا بدرهم كان مشتركا، إلا أن يقول: ولا ترعى غنم غيري وسيتضح.
وفي جواهر الفتاوى: استأجر حائكا لينسج ثوبا ثم آجر الحائك نفسه من آخر للنسج صح كلا العقدين؛ لأن المعقود عليه العمل لا المنفعة (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه).
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 662)
(المادة 578) لو أعطى أحد ماله لدلال، وقال بعه بكذا دراهم فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال، وليس للدلال سوى الأجرة.  لو أعطى أحد مالا للدلال، وقال بعه اليوم بكذا قرشا فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال؛ لأن هذا الفضل بدل مال ذلك الشخص، فكما أن ذلك المبدل كان ماله فالبدل يلزم أن يكون كذلك، وليس للدلال سوى أجرة الدلالة.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۴ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب