021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خیار شرط کے ساتھ لی گئی مبیع میں اضافہ اور اس کے اقالہ کا حکم
75550خرید و فروخت کے احکامخرید وفروخت میں اختیار رکھنا

سوال

کسی شخص نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ: میں تمہارے پاس اپنے ایک دوست کو بھیجوں گا، تم اس سے پیسے لے کر  بائیک دے دینا۔ جب وہ دوست خریدار کے پاس بائیک لایا ،تو اس نے تھوڑی استعمال کی اور ہلکا سا کام کروایا (اوپر اوپر سے)پھر خریدار سیلر سے کہتا ہے  مجھے یہ چیز سمجھ نہیں آ رہی لیکن میں ایک ہفتہ استعمال کر کے پھر  فیصلہ کرتا ہوں ۔

              ۱۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا  درست ہے؟

              ۲۔خریدار کے وکیل نے جو کام کر وایا تھا بائیک پر اس وجہ سے معاملہ میں کوئی اثر پڑے گا؟  

              ۳۔ اگر سیلر یوں کہے کہ میں واپس نہیں لیتا کیونکہ تمہارے وکیل نے اس میں کام کروایا ہے، تو خریدار کیسے واپس کر سکتا ہے ؟

وضاحت: استعمال کر کے فیصلہ کرنے کی شرط خریدار نے شروع میں رکھی  تھی پھر بعد میں وکیل نے قبضہ کیا تھا ۔ وکیل نے گاڑی میں آئل بھی تبدیل کروایا، کلچ وائر بھی تبدیل کروایا اور  انجن کی سروس بھی  کر وائی، اسی طرح بریک شو بھی تبدیل کر وایا تھا ۔  وکیل کے کام کروانے پر مؤکل نے رضامند ظاہر کی اور اسے پیسے بھی دے دئیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ تفصیل اور سائل کی وضاحت کی روشنی میں جوابات درج ذیل ہیں۔

۱۔ خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان معاملہ اس شرط کے ساتھ ہوا تھا کہ پہلے وہ ایک ہفتے تک استعمال کرے گا اور پھر خریدنے کا فیصلہ کرے گا ۔چنانچہ اس طرح  خرید و فروخت کا معاملہ کرنا درست ہے ۔

(۲،۳)۔ وکیل نے  مؤکل کی رضامندی سے بائیک میں جو مختلف کام کر وائے ہیں وہ شرعاً خریدی ہوئی چیز میں  تصرف اور   اضافہ شمار ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ایک ہفتہ استعمال کر کے فیصلہ کرنے کی جو مہلت لی گئی تھی جسے فقہ کی اصطلاح میں خیار شرط کہتے ہیں وہ   ختم ہو گیا  ہے اور خرید و فروخت کا یہ  معاملہ پختہ ہو کر مکمل ہو گیا  ہے۔ چنانچہ  بائیک اب اس کی ہو چکی ہے اور  اب خریدار  خیار شرط کی وجہ سے بائیک کو واپس نہیں کر سکتا ۔

    البتہ یہ معاملہ مکمل ہو جانے کے بعد  اگر خریدار اپنے حق کو ساقط کردے  اور فروخت کنندہ اسی حالت میں(اضافے اور زیادتی  کے ساتھ ) بائیک واپس لینے  اور  اس معاملہ کو فسخ کرنے پر راضی ہو جائے تو  خریدار بائیک کو واپس کر کے اقالہ کر سکتا ہے، لیکن اگر سیلر  راضی نہ ہو تو پھر خریدار کسی طرح واپس نہیں کر سکتا۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص60):
(المادة 300) يجوز أن يشرط الخيار بفسخ البيع أو إجازته مدة معلومة لكل من البائع والمشتري أو لأحدهما دون الآخر۔
فتاوى  قاضي خان، ط: دار الكتب العلمية ، بيروت-لبنان (2/66):
رجل اشترى جارية على أنه بالخيار ثلاثة أيام، فولدت عند المشتري، بطل خياره، وإن كان الولد ميتاً، ولم تنقصها الولادة، لا يبطل خياره . ولو حدثت الزيادة عند المشتري في ذات المبيع، كالسمن ونحو ذلك، بطل خياره في قول أبي حنيفة، وأبي يوسف رحمهما الله تعالى.
رجل اشترى دابة على أنه بالخيار ثلاثة أيام فقص حوافرها، أو أخذ شيئاً من عرفها، لا يبطل خياره، ولو نزعها بطل خياره.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق  :(6/ 15)
وقد ذكر المصنف حكم هلاكه في يد المشتري ونقصانه ولم يذكر حكم زيادته عنده وحاصله أن الزيادة منفصلة كانت أو متصلة سواء كانت متولدة من الأصل كالولد والسمن والجمال والبرء من المرض وذهاب البياض من العين أو لا كالصبغ والعقر والكسب والبناء ورش الأرض يمنع الفسخ إلا في المنفصلة الغير المتولدة فإنها لا تمنع كما في التاتارخانية.
حاشية ابن عابدين ،  رد المحتار ط الحلبي :(5/ 125)
(قوله: لا قبله مطلقا) أي متصلة أو منفصلة قال في الفتح: والحاصل أن الزيادة متصلة كانت كالسمن أو منفصلة كالولد والأرش والعقر إذا كانت قبل القبض لا تمنع الفسخ والدفع، وإن كانت بعد القبض متصلة، فكذلك عنده، وإن كانت منفصلة بطلت الإقالة لتعذر الفسخ معها اهـ۔ ومثله في ابن مالك على المجمع لكن قدمنا عن الخلاصة أن ما يمنع الرد بالعيب يمنع، الإقالة، وقدمنا أيضا أن الرد بالعيب يمتنع في المتصلة الغير المتولدة مطلقا، وفي المنفصلة المتولدة لو بعد القبض فقط ويوافقه ما في الخامس والعشرين من جامع الفصولين: أن الرد بالعيب يمتنع لو الزيادة متصلة لم تتولد اتفاقا كصبغ وبناء، والمنفصلة المتولدة كولد وثمر وأرش وعقر تمنع الرد وكذا تمنع الفسخ بسائر أسباب الفسخ، والمنفصلة التي لم تتولد ككسب وغلة لا تمنع الرد والفسخ بسائر أسبابه اهـ۔ [تنبيه]: قال في الحاوي: تقايلا البيع في الثوب بعدما قطعه المشتري وخاطه قميصا أو في الحديد، بعدما اتخذه سيفا لا تصح الإقالة كمن اشترى غزلا فنسجه أو حنطة فطحنها، وهذا إذا تقايلا على أن يكون الثوب للبائع، والخياطة للمشتري يعني يقال للمشتري: افتق الخياطة وسلم الثوب لما فيه من ضرر المشتري فلو رضي بكون الخياطة للبائع بأن يسلم الثوب إليه كذلك يقول تصح اهـ۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 169):
ومن موانع الإقالة تبدل الاسم كما إذا اشترى رجل من آخر خيوطا أو قمحا فنسج من الخيوط ثوبا أو طحن القمح وصار اسم تلك الخيوط ثوبا والقمح دقيقا أو اشترى ثوبا فخاطه قميصا فالإقالة في هذه المبيعات التي تبدلت أسماؤها غير صحيحة هذا إذا بنيت الإقالة على أن يرد الأصل للبائع فقط دون الزيادة كأن يقال للمشتري مثلا: افتق الخياطة وسلم الثوب للبائع على ما في هذا من الضرر للمشتري فلو بنيت الإقالة على رد الأصل والزيادة للبائع كأن يسلم الثوب إلى البائع بعد أن صيره المشتري قميصا كما هو صحت الإقالة رد المحتار الأنقروي .

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏۱۸، جمادی الثانی ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب