021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حدیث”لا حظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلاَ لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ”‏‏کامطلب
75736زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

حدیث میں آتا ہے کہ صدقے میں  مالدار، طاقتور اور کمانے والے شخص کاکوئی حصہ نہیں:

 أَخْبَرَنِي رَجُلاَنِ، أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَقْسِمُ الصَّدَقَةَ فَسَأَلاَهُ مِنْهَا فَرَفَعَ فِينَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ فَرَآنَا جَلْدَيْنِ فَقَالَ:"‏ إِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا وَلاَ حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلاَ لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ"‏‏.‏

صدقے میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقتور کا جو مزدوری کر کے کما سکتا ہو “ ۔(سنن ابي داؤد:1633) حدیثِ بالا کا مصداق اور حکم بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مالدار ہو اور کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو اسے صدقات لینے سے احتراز کرنا چاہیے،پھر صدقات واجبہ تو غنی کو نہ دینا جائز ہے اور نہ غنی کے لئے ان کا لینا،اگر جانتے بوجھتے صدقات واجبہ مالدار شخص کو دیئے تو فریضہ ساقط نہیں ہوگا،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ  «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» کہ صدقاتِ واجبہ اغنیاء سے وصول کرکے فقراء میں تقسیم کئے جائیں۔

البتہ احناف کے نزدیک ایسےفقیر کو صدقات واجبہ دیئے جاسکتے ہیں جو کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو،احناف اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صدقہ واجبہ لایا گیا تو آپ نے صحابہ کو کھانے کا فرمایا اور خود تناول نہیں فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ واجبہ ایسے محتاج کو دیا جاسکتا ہے جو کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو،کیونکہ یہ تو بعید ہے کہ اس وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تمام صحابہ ایسے تھے جو معذور تھے اور کمانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے،لیکن پھر بھی حضور نے سب کو کھلایا۔

جبکہ سوال میں ذکر کی گئی حدیث کا احناف یہ جواب دیتے ہیں کہ اس میں ایسے فقیر کو جو کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے خود کمانے کی ترغیب دی گئی ہے،یہی وجہ ہے کہ حضور نے صدقہ مانگنے کے لئے آنے والے دونوں آدمیوں سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں،اگر دینا جائز ہی نہ ہوتا تو حضور انہیں اس طرح نہ فرماتے،آپ کا یہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ دینے کی گنجائش ہے،اگرچہ اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ دوسروں سے مانگنے کے بجائے خود کماکر اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (2/ 47):
"وقول النبي - صلى ﷲ عليه وسلم - «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.
وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة".
"بدائع الصنائع " (2/ 48):
"وقال مالك: من ملك خمسين درهما لا يحل له أخذ الصدقة ولا يباح أن يعطى، واحتج بما روي عن علي وعبد ﷲ بن مسعود وسعد بن أبي وقاص - رضي ﷲ عنهم - أنهم قالوا: لا تحل الصدقة لمن له خمسون درهما أو عوضها من الذهب وهذا نص في الباب.
ولنا حديث معاذ حيث قال له النبي: - صلى ﷲ عليه وسلم - «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» قسم الناس قسمين: الأغنياء، والفقراء فجعل الأغنياء يؤخذ منهم والفقراء يرد فيهم فكل من لم تؤخذ منه يكون مردودا فيه، وما رواه مالك محمول على حرمة السؤال، معناه لا يحل سؤال الصدقة لمن له خمسون درهما أو عوضهما من الذهب أو يحمل ذلك على كراهة الأخذ؛ لأن من له سداد من العيش فالتعفف أولى؛ لقول النبي - صلى ﷲ عليه وسلم - «من استغنى أغناهﷲ ومن استعف أعفهﷲ» .
وقال الشافعي: يجوز دفع الزكاة إلى رجل له مال كثير ولا كسب له وهو يخاف الحاجة ويجوز له الأخذ وهذا فاسد؛ لأن هذا دفع الزكاة إلى الغني ولا سبيل إليه لما بينا وخوف حدوث الحاجة في الثاني لا يجعله فقيرا في الحال ألا ترٰی أنه لا يعتبر ذلك في سقوط الوجوب حتى تجب عليه الزكاة فكذا في جواز الأخذ.
ولو كان الفقير قويا مكتسبا يحل له أخذ الصدقة عندنا وعند الشافعي لا يحل واحتج بقول النبي - صلى ﷲ عليه وسلم -: «لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي» وفي بعض الروايات «ولا لقوي مكتسب» ، ولنا ما روي عن سلمان الفارسي أنه قال: «حمل إلى رسول ﷲ - صلىﷲ عليه وسلم - صدقة فقال لأصحابه: كلوا ولم يأكل» ومعلوم أنه لا يتوهم أن أصحابه - رضي ﷲ عنهم - كانوا كلهم زمنى بل كان بعضهم قويا مكتسبا وما رواه الشافعي محمول على حرمة الطلب والسؤال فإن ذلك للزجر عن المسألة والحمل على الكسب، والدليل عليه ما روي «أن النبي – صلىﷲعليه وسلم - قال: للرجلين اللذين سألاه إن شئتما أعطيتكما منه ولا حق فيها لغني ولا لقوي مكتسب» ولو كان حراما لم يكن النبي – صلىﷲعليه وسلم - ليعطيهما الحرام، ولكن قال ذلك للزجر عن السؤال والحمل على الكسب كذا هذا".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب