021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالِ حرام میں تملیک ضروری نہیں
75741زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

 اگر دینے والے کی نیت حرام مال سے جان چھڑانا  ہے اور وہ بلا نیت ثواب    صدقہ  کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں  اس رقم کو کہاں  خرچ کیا جاسکتاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ حرام مال کا اصل حکم یہ ہے کہ اسے اصل مالک کو واپس دیا جائے،اگر اصل مالک معلوم نہ ہونا یا اسے واپس کرنا مشکل ہو تو پھر اصل مالک کے ثواب کی نیت سے اسے صدقہ کرنا لازم ہے،یہی حکم لقطہ کا بھی ہے اور لقطہ کا تصدق تو ضروری ہے،لیکن تملیک ضروری نہیں،چنانچہ لقطے کا مال جس طرح فقیر کو دیا جاسکتا ہے،اسی طرح رفاہِ عامہ کے کاموں مثلا ہسپتالوں،پلوں،سرحدات اور مساجد ومدارس وغیرہ کی تعمیرات میں بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔

لہذامالِ حرام بھی فقراء کو دینے کے علاوہ دیگر ایسے رفاہی کاموں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں تملیک نہیں پائی جاتی،تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:"فتاوی عثمانی": 3/ 129،البتہ مساجد میں مال حرام لگانے سے احتراز کیا جائے کہ یہ مساجد کے تقدس کے خلاف ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(5/ 99):
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه ".
"المبسوط للسرخسي" (11/ 7):
"فأما إذا كان غنيا فليس له أن يصرف اللقطة إلى نفسه عندنا".
"الدر المختار " (2/ 338):
ورابعها الضوائع مثل ما لا ... يكون له أناس وارثونا...
ورابعها فمصرفه جهات ... تساوى النفع فيها المسلمونا
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ".
"اعلاء السنن" (13/ 29):
"واللقطة ان کانت واجبة التصدق لیست من الصدقات الواجبة،بل مصارفھا مصارف الصدقة النافلة حیث جاز ان یتصدق بھا علی فقیر ذمی".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب