021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرائےپردیےہوئےمکانوں پرزکواۃ واجب ہوگی
76409زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

اگرکسی بندےکےبہت سارےگھرہوں جواس نےکرائےپردیےہوں،اورایک گھرمیں وہ  خودرہتاہوتوکیاان تمام گھروں  کی زکواۃ اداکرنی ہوگی جبکہ انہی پیسوں سےاس کاگھرچل رہاہو؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرکسی نےبہت سارےمکان کرایہ پر دیےہوئےہیں تو مکانوں کی قیمت پر زکوۃواجب نہیں ہوگی، اسی طرح حاصل ہونےوالاکرایہ  اگر سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو،استعمال میں آجاتا ہوتو استعمال شدہ کرایہ پر بھی زکواۃلازم نہیں ہوگی،لیکن  اگر وہ شخص پہلے سے صاحب نصاب ہوتو اس صورت میں جس دن اس کی زکوۃکا قمری سال مکمل ہورہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ موجود ہوجواستعمال میں نہ آیا ہو، اسے کل مال کے ساتھ شامل کرکے کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورزکوۃادا کرنا لازم ہوگا۔

حوالہ جات
«فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي» (2/ 167):
ولو ‌أجر ‌عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة لا يجب ما لم يحل الحول بعد القبض في قوله وإن كانا للتجارة
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (1/ 180):
ولو ‌اشترى ‌قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولا لا تجب فيه الزكاة كذا في فتاوى قاضي خان

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۸شعبان ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب