021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک لاکھ پرمتعین  نفع (تین ہزارروپے)کی شرط لگانا
76478شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم گزارش یہ ہےکہ میں نے اپنےماموں سسر کےکاروبارمیں اپنےکچھ پیسےلگائےتھے،جواس بنیاد پرتھےکہ دوکان کےلیےمال سامان خریدتےوقت کمپنی جوڈسکاؤنٹ انہیں دےگی وہ اس میں ایک لاکھ پرتین ہزارمجھے دیں گےایک مہینےکےبعد،مگرمجھےیہ تین ہزار روپےجوایک لاکھ پرمختص کیےتھےپورےنہ ملتےتھے،جوجمع ہوتےہوتےدولاکھ تک جاپہنچے۔

اب میرےماموں سےتقاضاکرنےپران کاکہناہےکہ انہوں نےکسی سےفتوی لیاہے،ان کاکہناہےکہ یہ رقم جو میں لےچکاہوں یاباقی ہے،سودکےزمرےمیں آئےگی جوکہ لیناجائزنہیں،آپ سےدرخواست ہےکہ کسی اچھےمفتی صاحب سےمعلوم کرکےبتادیں کہ میں یہ رقم لوں یانہ لوں ؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبارکی مذکورہ بالاصورت شرعادرست نہیں کیونکہ شرکت یامضاربت کےجوازکی بنیادی شرط یہ ہےکہ نفع لم سم رقم کی صورت میں متعین نہ ہو،بلکہ فیصدی طورپرمتعین کیاجائے،صورت مسئولہ میں چونکہ ایک لاکھ پرتین ہزارنفع کی شرط  متعین رقم کی صورت میں  تھی ،اس لیےشرکت کی یہ صورت جائزنہیں ہے،بلکہ اس طرح کی شرط فاسدکی وجہ سےشرکت بھی فاسد ہوگئی ہے۔

 شرکت فاسدہ کاحکم یہ ہےکہ نفع نقصان کوسرمایہ کےبقدرتقسیم کیاجاتاہے۔

لہذاموجودہ صورت میں مذکورہ معاملہ سےحاصل ہونےوالانفع شرکاء کےدرمیان ہرایک کےسرمایہ کےبقدرتقسیم کیاجائےگا۔مثلا آپ کی طرف سےلگایاگیاسرمایہ  مکمل کاروبارکا 5فیصدہوتوجتنانفع ہوگا،اس میں سے5فیصدنفع کےآپ حق دارہوں گے۔

موجودہ صورت میں اس کااندازہ لگایاجائےکہ جب سےآپ نےرقم کاوربارمیں لگائی ہے،اس وقت سےآپ کےاورآپ کےماموں کےکتنےپیسےکاروبارمیں لگےتھے؟اورمکمل نفع کتناہواتھا؟پھریہ اندازہ لگایاجائےگاکہ آپ کی طرف سےلگائی گئی رقم  کل کاروبارکاکتنافیصدہے؟جتنےفیصدبنتی ہوگی،نفع میں بھی اس فیصدکےاعتبارسےآپ کاحصہ ہوگااورماموں پرلازم ہوگاکہ آپ کووہ حصہ دیں۔

مذکورہ معاملہ کےجوازکی صورت یہ ہوسکتی ہےکہ نفع فیصدی طورپرمتعین کردیاجائےمثلا  یہ طےکرلیاجائےکہ  جتنانفع ہوگا،اس کا 3فیصدآپ کودیاجائےگا تویہ  صورت شرعادرست ہوجائےگی ۔

آئندہ کےلیےسابقہ کاروبارکوختم کرکےشریعت کےاصولوں  کےمطابق علماء کرام کی مشاورت سےنیاعقدکرناضروری ہوگا۔

حوالہ جات
"رد المحتار 23 / 348:
( وكون الربح بينهما شائعا ) فلو عين قدرا فسدت ( وكون نصيب كل منهما معلوما ) عند العقد ۔
ومن شروطها : كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت ، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها ، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة۔
 "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي" 5/54 ط)
" (قوله في المتن ويكون الربح بينهما مشاعا) قال الأتقاني وذلك؛ لأن المقصود من عقد المضاربة هو الشركة في الربح فإذا اشترط لأحدهما دراهم مسماة كالمائة ونحوها تفسد المضاربة؛ لأن شرط ذلك يفضي إلى قطع الشركة؛ لأنه ربما لا يكون الربح إلا ذلك القدر فلا يبقى للآخر شيء من الربح قال شمس الأئمة البيهقي في الكفاية شرطه أن يكون قدرا معلوما مشاعا من كل الربح مثل الثلث والربع فإذا شرط لأحدهما مائة من الربح مثلا أو مائة مع الثلث أو الثلث إلا مائة والباقي للآخر لم تجز المضاربة؛ لأنه يؤدي إلى قطع الشركة في الربح لجواز أن لا يربح إلا ذلك القدر"
"العناية شرح الهداية" 8 / 309:
( وكل شركة فاسدة فالربح فيهما على قدر المال ، ويبطل شرط التفاضل ) لأن الربح فيه تابع للمال فيتقدر بقدره ، كما أن الريع تابع للبذر في الزراعة ، والزيادة إنما تستحق بالتسمية ، وقد فسدت فبقي الاستحقاق على قدر رأس المال۔
"بدائع الصنائع" 13 / 142:
 ( وأما ) الشركة الفاسدة وهي التي فاتها شرط من شرائط الصحة ، فلا تفيد شيئا مما ذكرنا ؛ لأن لأحد الشريكين أن يعمله بالشركة الصحيحة ، والربح فيها على قدر المالين ؛ لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط ؛ لأن الشرط لم يصح ، فألحق بالعدم ، فبقي الاستحقاق بالمال ، فيقدر بقدر المال ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

15/شعبان   1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب