021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"جاؤ، تم میری طرف سے آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ” الفاظ کا حکم
78192طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

ڈیڑھ سال پہلے میرا اپنے شوہر وحید سے جھگڑا ہوا، جھگڑے میں انہوں نے پشتو میں کہا "جاؤ، تم میری طرف سے آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ"، میں نے کہا کہ اگر آپ مجھے طلاق دے رہے ہیں تو صحیح طریقے سے دیدیں؛ تاکہ میں چلی جاؤں۔ اس نے کہا کہ آزاد کا مطلب نہیں سمجھتی؟ آزاد ہو تو آزاد ہو۔ اس جھگڑے کے ایک ماہ بعد میرا اپنے ایک کزن عرفان سے فون پر نکاح ہوگیا، نکاح مسجد میں ہوا، نکاح عرفان نے خود پڑھایا، دو گواہ موجود تھے، بقولِ عرفان نکاح کے وقت موبائل کا اسپیکر کھلا تھا۔ پھر مجھے میرے سابقہ شوہر وحید پشاور کے ایک بہت بڑے مدرسے میں لے گئے، وحید نے وہاں کے مفتی سے کہا کہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی اور میں نے یہ کہا تھا کہ تم ایک آزاد (یعنی آوارہ) عورت ہو۔ مفتی صاحب نے کہا یہ طلاقِ رجعی ہے اور چونکہ ساتھ رہ رہے ہیں تو رجوع بھی ہوچکا ہے۔ میرے شوہر اپنی بات سے ہٹ گئے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ چونکہ جامعۃ الرشید کے ایک مفتی صاحب نے کہا تھا کہ آپ کی طلاق بائن ہے اور نئے مہر سے نیا نکاح ضروری ہے، اس لیے میرا نکاح وحید سے دوبارہ پڑھوایا جائے، چنانچہ دوبارہ نکاح ہوا۔ یہ دونوں نکاح عدت کے اندر ہوئے۔ اس سارے عرصے میں میں اپنے شوہر وحید کے پاس رہی اور اب بھی اسی کے پاس ہوں، 3 یا 4 مرتبہ صحبت بھی کرچکے ہیں۔ اس جھگڑے سے ایک سال پہلے سے میرا شوہر سے کوئی ازدواجی تعلق نہ تھا۔ اور وحید اس طرح کے الفاظ کہ آزاد ہو، 2 یا 3 مرتبہ پہلے بھی بول چکا ہے۔

اب میں شرعا کس کی بیوی ہوں؟ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ مجھے تفصیلی فتویٰ عنایت فرمائیں؛ تاکہ میں اپنے شوہر کو بتاسکوں۔ ہمارے یہاں مرد اکثر طلاق دینے کے بعد مکر جاتے ہیں، صریح طلاق سے بھی مکر جاتے ہیں، میرے شوہر بھی مفتی حضرات کے سامنے اپنی بات سے ہٹ گئے۔  

تنقیح: سائلہ نے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے فون پر بتایا کہ:

(1) میرے شوہر نے اس جھگڑے سے پہلے جو تین مرتبہ آزاد کے الفاظ کہے تھے وہ اس طرح ہوتا تھا کہ میں کہیں جانا چاہتی تھی، وہ منع کرتے اور میں کہتی کہ نہیں مجھے جانا ہے تو وہ نفرت اور غصے سے کہتے جہاں جانا ہے جاؤ، میری طرف سے آزاد ہو، میں پھر رک جاتی تھی جانے سے، یہ بات طلاق کے پسِ منظر میں نہیں ہوتی تھی، بلکہ مقصد غصے اور نفرت کا اظہار ہوتا تھا کہ جانا ہے تو جاؤ۔

(2) اس جھگڑے سے پہلے جوایک سال ازدواجی تعلقات نہیں تھے، وہ لڑائیوں کی وجہ سے نہیں تھے۔

(3) وحید سے دوبارہ میرا نکاح مجھے مار پیٹ کر کیا گیا، نکاح میرے بھائی نے پڑھایا، جب اس نے کہا کہ میں نے آپ کا نکاح اس کے ساتھ کردیا ہے تو میں خاموش رہی، پھر اس نے مجھے بتایا کہ آپ کہیں کہ مجھے قبول ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے، یعنی قبول ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کے شوہر کے ان الفاظ "جاؤ، تم میری طرف سے آزاد ہو، اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ" اور پھر آپ کے طلاق سے متعلق سوال پر یہ کہنا کہ آزاد کا مطلب نہیں سمجھتی؟ آزاد ہو تو آزاد ہو، سے آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوئی تھی۔ طلاقِ بائن سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد شوہر رجوع نہیں کرسکتا، البتہ وہ دونوں باہم رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، عدت کے اندر بھی اور عدت گزرنے کے بعد بھی، لیکن وہ خاتون عدت ختم ہونے سے پہلے کسی اور مرد سے نکاح نہیں کرسکتی، اگر کرلیا تو وہ نکاح منعقد نہیں ہوگا؛ لہٰذا آپ نے اس طلاق کے بعد عدت کے دوران اپنے کزن عرفان کے ساتھ فون پر جو نکاح کیا تھا، وہ منعقد نہیں ہوا تھا، مزید یہ کہ وہ نکاح فون پر ہوا تھا، اور فون پر نکاح صحیح نہیں، اس لیے اگر آپ عدت میں نہ ہوتی تب بھی وہ نکاح درست نہ ہوتا۔ یہ نکاح اگرچہ منعقد نہیں ہوا تھا، لیکن اس حرام کام (عدت کے اندر نکاح) کا عزم اور اقدام سخت ناجائز اور حرام ہے، اس لیے آپ اور آپ کے کزن عرفان دونوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس قسم کے کاموں سے اجتناب کا پکا عزم کریں۔

سابقہ شوہر وحید کے ساتھ آپ کا دوبارہ جو نکاح ہوا، اس کے لیے آپ کے بھائیوں کا آپ کو مارنا، پیٹنا ہرگز جائز نہیں تھا، لیکن جب آپ نے نکاح کے وقت طبعی ناگواری کے باوجود نکاح کو قبول کرلیا تو نکاح منعقد ہوگیا، اور آپ دونوں دوبارہ میاں بیوی بن گئے؛ کیونکہ عدت کے دوران اسی شوہر سے دوبارہ نکاح جائز ہے، لہٰذا اب آپ وحید کی بیوی ہے اور آپ دونوں کا میاں بیوی کی طرح رہنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ اب آپ کے شوہر وحید کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہے، یعنی اگر وہ دو طلاقیں مزید دے گا تو تین طلاقیں پوری ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی، جس کے بعد نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ تحلیل کے بغیر دوبارہ نکاح؛ اس لیے اس پر لازم ہے کہ آئندہ طلاق کے معاملے میں سخت احتیاط کام لے۔ آپ دونوں کو چاہیے کہ جو کچھ ہوا ہے، اس کو بھلا کر اور ایک دوسرے کو معاف کر کے آئندہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور خوش گوار زندگی گزاریں۔    

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (6/ 233):
كاح المعتدة باطل.
بدائع الصنائع (3/ 204):
 فصل: وأما أحكام العدة:  فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة لقوله تعالى { ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله } قيل أي لا تعزموا على عقدة النكاح وقيل أي لا تعقدوا عقد النكاح حتى ينقضي ما كتب الله عليها من العدة ولأن النكاح بعد الطلاق الرجعي قائم من كل وجه وبعد الثلاث والبائن قائم من وجه حال قيام العدة لقيام بعض الآثار، والثابت من وجه كالثابت من كل وجه في باب الحرمات احتياطا.
 ويجوز لصاحب العدة أن يتزوجها؛ لأن النهي عن التزوج للأجانب لا للأزواج؛ لأن عدة الطلاق إنما لزمتها حقا للزوج لكونها باقية على حكم نكاحه من وجه، فإنما يظهر في حق التحريم على الأجنبى لا على الزوج؛ إذ لا يجوز أن يمنع حقه.
الدر المختار (3/ 21):
( وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر ) ليتحقق رضاهما ( و ) شرط ( حضور ) شاهدين ( حرين ) أو حر وحرتين ( مكلفين سامعين قولهما معا ) على الأصح …… الخ
رد المحتار (3/ 21):
قوله ( ليتحقق رضاهما ) أي ليصدر منهما ما من شأنه أن يدل على الرضا إذ حقيقة الرضا غير مشروطة في النكاح لصحته مع الإكراه والهزل،  رحمتي. وذكر السيد أبو السعود أن الرضا شرط من جانبها لا من جانب الرجل واستدل لذلك بما صرح به القهستاني في المهر من فساد العقد إذا كان الإكراه من جهتها.  
 وأقول: فيه نظر؛ فإنه ذكر في النقاية أن في النكاح الفاسد لا يجب شيء إن لم يطأها وإن وطئها وجب مهر المثل فقال القهستاني عند قوله في النكاح الفاسد أي الباطل كالنكاح للمحارم المؤبدة أو المؤقتة أو بإكراه من جهتها الخ، فقوله "من جهتها" معناه أنها إذا أكرهت الزوج على التزوج بها لا يجب لها عليه شيء؛ لأن الإكراه جاء من جهتها، فكان في حكم الباطل، لا باطلا حقيقة، وليس معناه أن أحدا أكرهها على التزوج، ونظير هذه المسألة ما قالوه في كتاب الإكراه من أنه لو أكره على طلاق زوجته قبل الدخول بها لزمه نصف المهر ويرجع به على المكره إن كان المكره له أجنبيا، فلو كانت الزوجة هي التي أكرهته على الطلاق لم يجب لها شيء، نص عليه القهستاني هناك أيضا.  
وأما ما ذكر من أن نكاح المكره صحيح إن كان هو الرجل، وإن كان و المرأة فهو فاسد، فلم أر من ذكره، وإن أوهم كلام القهستاني السابق ذلك، بل عبارتهم مطلقة في أن نكاح المكره صحيح كطلاقه وعتقه مما يصح مع الهزل، ولفظ المكره شامل للرجل والمرأة، فمن ادعى التخصيص فعليه إثباته بالنقل الصريح، نعم! فرقوا بین الرجل والمرأة في الإكراه على الزنا في إحدى الروايتين. ثم رأيت في إكراه الكافي للحاكم الشهيد ما هو صريح في الجواز؛ فإنه قال: ولو أكرهت على أن تزوجته بألف ومهر مثلها عشرة آلاف زوجها أولياؤها مكرهين فالنكاح جائز، ويقول القاضي للزوج إن شئت أتمم لها مهر مثلها وهي امرأتك إن كان كفؤا لها وإلا فرق بينهما ولا شيء لها الخ فافهم.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  19/ربیع الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب