021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں وفات پانے والی بیٹی کی اولاد وارث نہیں ہوگی
78249میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص فوت ہوا، اس کے ورثاء میں ایک بیوہ، پانچ بیٹے، ایک بیٹی (جو کہ مرحوم کی زندگی میں فوت ہوئی) کی اولاد اور دو بیٹیاں جو کہ ابھی تک حیات ہیں۔ نیز کیا زندگی میں وفات پانے والی بیٹی کی اولاد وارث ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہے اور مرحوم  کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب  الادء ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(3/1) تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے   اس کوچھیانوے(96) حصوں میں  برابرتقسیم کرکے  مرحوم کی بیوی کو بارہ (12) حصے، ہر بیٹےکو چودہ (14) حصے اور بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو سات(7) حصے دیے جائیں گے، فيصدی لحاظ سے ہر وارث كے حصہ کی تفصیل ذیل کے  نقشہ میں  ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

وارث

    عددی حصہ

فيصدی حصہ

1

بیوی

12

12.5%

2

بیٹا

14

14.583%

3

بیٹا

14

14.583%

4

بیٹا

14

14.583%

5

بیٹا

14

14.583%

6

بیٹا

14

14.583%

7

بیٹی

7

7.291%

8

بیٹی

7

7.291%

  جہاں تک اس بیٹی کا تعلق ہے جو اپنے والد کی زندگی میں وفات پا چکی تھی اس کی اولاد اپنے نانا کی میراث میں سے کسی حصے کی وارث نہیں ہو گی، کیونکہ حقیقی اولاد کی موجودگی میں پوتے اور نواسے وغیرہ شرعاً وارث نہیں ہوتے، البتہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا } [النساء: 8]

 ترجمہ: اور جب میراث تقسیم ہونے لگے اور اس وقت (غیروارث) رشتہ دار، یتیم اور مسکین لوگ بھی آجائیں تو ان کو بھی اس (ميراث) میں سے کچھ دے دو اور ان کے ساتھ مناسب انداز سے بات کرو۔ 

 (آسان ترجمہٴ قرآن: النساء: 8)

لہذا مرحوم بیٹی کی اولاد اگر مستحق ہے تو میراث کی تقسیم کے وقت ان کو بھی احسان کے طور پر کچھ مال دے دینا چاہیے، اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور مسلمان رشتہ دار کے تعاون کا اجروثواب بھی ملے گا اور رشتہ داری کے تعلقات بھی ان شاء اللہ بہتر رہیں گے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم : [النساء/11]
 يوصيكم اللَّه في أَولَادكم للذكَر مثل حظ الأنثيينِ.
القرآن الکریم : [النساء: 12]
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
  صحيح البخاري (8/ 151) دار طوق النجاة:
وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»
صحيح البخاري (8/ 151) دار طوق النجاة:
 عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

19/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب