021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جس شخص کی رقم لوگوں پر قرض ہو اس کا زکوة لینا
78216زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

زید صاحب نصاب ہے اور ایک مدرسے کا مہتمم بھی ہے،لیکن فی الحال زید کے پیسے لوگوں کے پاس قرض ہیں،جن کی وصولی میں تقریبا سال لگ جائے گا،فی الحال زید کے پاس نقد رقم نصاب کے برابر نہیں،کیا ایسی صورت میں زید مدرسے کے لئے زکوة کی رقم قبضہ کرسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو قرض وصول ہونے کی امید ہو وہ انسان کی ملکیت میں شمار ہوتا ہے،لہذا مذکورہ صورت میں اس رقم کی وجہ سے زید صاحب نصاب ہے اور اس کے لئے لوگوں سے زکوة وصول کرنا درست نہیں ہے،البتہ زید مدرسے میں موجود مستحق طلبہ کی طرف سے بطورِ وکیل زکوة وصول کرسکتا ہے،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

زیدکے مدرسےمیں زیرِ تعلیم طلبہ میں سے درج ذیل قسم کےطلبہ پر زکاة کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے:

1۔ایسے بالغ بچے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں،یعنی اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض یا سب  کا مجموعہ اتنی مقدار میں نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ (۳۵ء ۶۱۲ گرام )چاندی کے برابر ہو۔

2۔ایسے نابالغ بچے جو خود بھی صاحب نصاب نہ ہوں اور ان کے والدین بھی صاحبِ نصاب نہ ہوں۔

3۔ایسے یتیم بچے جن کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال نہ ہو۔

4۔یہ بچے سید نہ ہوں۔

لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے لیے  مستحقِ زکوۃ  شخص  کو  رقم کا  مالک   بنا کر دینا ضروری ہے ، اگر زکوۃ کی رقم مستحق شخص   کو مالک بنا کر نہ دی گئی  تو زکوۃ  ادا نہ  ہو گی ،لہذا زید کے لئے آسان صورت یہ ہے کہ وہ مستحقِ زکوة بالغ طلبہ سے بذاتِ خود،جبکہ نابالغ طلبہ کے ایسے سرپرستوں سے جو خود صاحب نصاب نہ ہوں زکوة کی وصولی کے لیے وکالت نامہ فارم پر دستخط لے لے،وکالت نامہ فارم پر دستخط لینے کے بعد زیدمستحق طلبہ کی طرف سے وکیل بن کر لوگوں سے زکوة کی رقم وصول کرکے مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرسکے گا۔

وکالت نامہ فارم کی عبارت یوں بنائی جاسکتی ہے کہ:

میں بالغ طالب علم /نابالغ طالب علم  کا سرپرست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکول  کےانچارج /منتظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شناختی کارڈ نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو اس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری  /  میرے زیر ِ کفالت ۔۔۔۔۔۔۔۔کی طرف سے  وکیل بن کر لوگوں سے زکوۃ اور  صدقات  واجبہ وصول کریں، پھر میری طرف سے وکیل بن کر  میری / ان کی اور دیگر مستحق طلبہ کے تعلیم و تعلم  کی ضروریات  پر خرچ کریں۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 305):
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض".
"الدر المختار " (2/ 349):
"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز لانتفاء المانع.
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ  (قوله: وطفل الغنية) أي ولو لم يكن له أب بحر عن القنية (قوله: لانتفاء المانع) علة للجميع والمانع أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف الكبير فإنه لا يعد غنيا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه ح في البحر".
" رد المحتار " (2 / 377):
"قوله: (تمليكا) فلا يكفي فيها الاطعام إلا بطريق التمليك، ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط. وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق، إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالاب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الاخذ كما في المحيط".
"بدائع الصنائع " (4 / 3):
"ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز ؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة لوجود التمليك من الفقير ؛ لأنه لما أمره به صار وكيلا عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم" .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب