021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے اور پوتے کو مشترک طور پر زمین ہبہ کرنے کا حکم
78265ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صالح محمد مرحوم نے اپنی زمین اپنی زندگی میں اپنے بیٹے سید احمد اور اپنے پوتے شبیر احمد ( جس کا والد یعنی صالح محمد کا بیٹا، صالح محمد کی زندگی میں فوت ہوچکا تھا) کو مشترکہ طور پر ھبہ کیا تھا اور زمین کا سرکاری انتقال دونوں کو، نصف زمین کا انتقال شبیر احمد اور نصف کا سید احمد کے نام پر 1978ء میں کروایا تھا (اس کے بعد وہ 1996ء تک زندہ تھا ) اور زمین سید احمد اور شبیر احمد مشترکہ طور پر کاشت کرتے اور حاصل کو دو حصوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ 2003ء تک یہی معمول رہا، 2000ء میں دونوں نے مشترکہ طور پر اس زمین پر ایک ٹیوب ویل بھی لگایا اور 2002ء میں دونوں نے اس زمین کا کچھ حصہ یعنی 42 کنال فروخت کیا جس کی قیمت دونوں نے نصف نصف تقسیم کیا۔ اس کے بعد 2003ء میں سید احمد نے شبیر احمد کے حصے سے انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ چونکہ میرے والد صالح محمد نے اس زمین کو ہم دونوں کے درمیان تقسیم نہیں کی ہے اس لئے یہ ھبہ مشاع ہے جو نافذ نہ ہوا؛ لہذا میراث کی وجہ سے یہ زمین میری ہے۔ شبیر احمد نے مقامی عدالت میں درخواست دی جس نے فیصلہ شبیر احمد کے حق میں کیا مگر سید احمد نے اس کو چیلنچ کیا، آخر کار پشاور ہائی کورٹ نے شبیر احمد کے حق میں فیصلہ سنایا اور پولیس نے آکر زمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ کو شبیر احمد کے بیٹوں کے قبضہ میں دیدیا (اس دوران شبیر احمد فوت ہوچکا تھا) اور دوسرا حصہ سید احمد کے قبضہ میں دیدیا مگر سید احمد اب بھی شبیر احمد کے حصے سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ یہ ھبہ مشاع ہے جو نافذ نہ ہوا؛ لما فی الدر المختار 8/456: (وھب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشیوع (وبقلبہ) لکبیرین (لا) عندہ للشیوع فیما یحتمل القسمۃ.

جبکہ شبیر احمد کے بیٹوں کا دعوی ہے کہ یہ ھبہ تام ہوا ہے، ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہے:

(1) یہ ہبہ مشاع نہیں ہے؛ لما فی رد المحتار8/459: والصدقۃ کالھبۃ لا تصح غیر مقبوضۃ ولا فی مشاع یقسم…….المراد من المشاع ان یھب بعضہ لواحد فقط فحینئذ ھو مشاع یحتمل القسمۃ بخلاف الفقیرین فانہ لا شیوع کما تقدم۔

(2) خاص کر جبکہ دونوں کے نام پر الگ الگ انتقال بھی ہوگیا ہو؛ لما فی امداد الاحکام 4/49:  میرے خیال میں کسی شخص کو یہ معلوم ہوجانا کہ فلاں فلاں نمبر میرے زمین کا ہے اور اس کا نام داخل خارج کاغذات میں ہوجانا قبض عقار کیلئے کافی ہے۔

(3) اگر ہبہ مشاع ہو تو اس میں صاحبین کے قول پر فتوی دینے کی گنجائش ہے؛ لما فی کتاب النوازل17/543: مسئولہ صورت میں اگر زید کے دادا نے اپنے مذکورہ بیٹوں کو بعض جائیداد میں ھبہ مشاع کے طور پر دے کر ان کے نام رجسٹری کرادی ہے اور وہ ان جگہوں پر زید کے دادا کی زندگی میں ہی قابض ودخیل بن چکے ہیں تو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق یہ ھبہ مشاع ان کے حق میں درست ہوچکا ہے وایضاً علی 12/158

(4) خاص کر جب کہ آج کل عرف عام میں ایسے ھبہ کو تام تسلیم کیا جاتا ہے اور عرف کی وجہ سے نص شرعی بھی چھوڑا جاسکتا ہے جبکہ یہاں نص مذہب ہے؛ لما فی احسن الفتاویٰ7/328:  ترک نص شرعی کیلئے تعامل عام شرط ہے مگر ترک نص مذہب کیلئے تعامل خاص بھی کافی ہے۔ کذا فی فتاویٰ دار العلوم زکریا 5/550۔

(5) ھبہ مشاع امام صاحب کے نزدیک اگرچہ ایک عقد فاسد ہے مگر باطل نہیں ہےاس لئے قبضہ کرنے کے بعد آپ ؒ کے نزدیک بھی موھوب لہ مالک بن جاتا ہے۔ مجمع الانھر 2/359 میں ہے: رجل وھب من رجلین شیئاً یحتمل القسمۃ فالھبۃ فاسدۃ ولیست بباطلۃ عند الامام فاذا قبضا ثبت لھما الملک علی قول وبہ یفتی کما فی الذخیرۃ۔

(6) شبیر احمد ھبہ لینے کے وقت فقیر تھا تو ھبہ اس کے حق میں صدقہ ہوا جس میں شیوع مفسد نہیں۔

 اب پوچھنا یہ ہے کہ سید احمد اور شبیر احمد میں سے کون حق بجانب ہے اور کس دلیل کی وجہ سے؟

تنقیح: سائل نے بتایا کہ ہبہ کے وقت موہوب لہ دونوں بالغ تھے، سید احمد غنی اور شبیر احمد فقیر تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ:

 (الف)۔۔۔ اگر کوئی شخص دو یا دو سے زیادہ افراد کو کوئی قابلِ تقسیم چیز تقسیم کیے بغیر مشاعاً ہبہ کرے تو حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق یہ شیوع  بھی ہبہ کے تام ہونے سے مانع ہوگا؛ لہٰذا یہ ہبہ درست نہیں ہوگا، البتہ حضراتِ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہبہ تام اور درست ہوگا۔  (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر: 1 اور 2)

(ب)۔۔۔ ہبۃ المشاع میں اگر موہوب لہ موہوبہ چیز پر قبضہ کرے تو اس کی ملکیت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس مسئلے میں دو اقوال ہیں، ایک قول کے مطابق قبضہ کے باوجود ملکیت ثابت نہیں ہوگی، جبکہ دوسرے قول کے مطابق قبضہ کے بعد باوجود شیوع کے ملکیت ثابت ہوجائے گی۔ اکثر فقہائے کرام نے پہلے قول کو راجح قرار دیا ہے، اسی کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے امداد المفتین (ص: 537) جمہور کا قول قرار دیا ہے، اور مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے عزیز الفتاویٰ (ص:641) میں اختیار فرمایا ہے، جبکہ بعض حضرات نے دوسرے قول کو مفتیٰ بہ قرار دیا ہے۔ اس لیے اصل فتویٰ تو پہلے قول پر ہی ہے، البتہ بوقتِ ضرورت دوسرے قول پر فتویٰ دینے کی گنجائش ہوگی۔ (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر: 3 تا 8)

(ج)۔۔۔ مذکورہ بالا دونوں نکات کے پیشِ نظر ہبہ کرتے وقت واہب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر ایک موہوب لہ کو اس کا حصہ الگ الگ کر کے دے؛ تاکہ تمام ائمہ کے نزدیک بالاتفاق ہبہ درست ہو۔ لیکن اگر کسی نے مشاعا ہبہ کرلیا اور موہوب لہ نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تو موجودہ زمانے میں قولِ جواز پر فتویٰ دینے کی گنجائش ہے، بالخصوص جب اس کے ساتھ حکمِ حاکم بھی مل جائے۔    

اس تفصیل کی روشنی میں صورتِ مسئولہ میں یہ ہبہ تام سمجھا جائے گا، جیسا کہ صاحبین رحمہما اللہ کا قول ہے، امام صاحب رحمہ اللہ کا قول لینے کی صورت میں بھی ایک قول کے مطابق موہوب لہ کے قبضہ ہونے کی وجہ سے یہ ہبہ تام ہوا، پھر جب مجاز عدالت نے بھی اس ہبہ کو درست قرار دیا اور عدالت کے حکم پر پولیس نے خود اس کی بھی تقسیم کی تو حکمِ حاکم رافعِ خلاف ہونے کی وجہ سے ہبہ کا تام ہونا مزید واضح ہوا۔  (باستفادۃٍ من فتوی جامعۃ دار العلوم کراتشی، الرقم:1968/100)               

یہ تو اصل سوال کا جواب ہوا، جہاں تک سوال میں مذکور جانبین کے دلائل کا تعلق ہے تو سید احمد کی دلیل کا جواب اوپر آگیا ہے، اور شبیر احمد کے ورثا کے دلائل کے بارے میں عرض یہ ہے کہ:

(1)۔۔۔ ان کی پہلی دلیل درست نہیں؛ کیونکہ اس عبارت میں ہبۃ المشاع کی ایک خاص صورت کا ذکر ہے جو متفق علیہ ہے، کہ کسی کو کسی چیز کا بعض حصہ دیا جائے۔ نیز صورتِ مسئولہ میں موہوب لہ دونوں فقیر بھی نہیں کہ اس کو "بخلاف الفقیرین" میں داخل کر کے ہبۃ المشاع سے خارج قرار دیا جائے۔ اس صورت کے ہبۃ المشاع ہونے یا نہ ہونے میں اگرچہ ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس کو مطلقا ہبۃ المشاع سے خارج قرار دینا درست نہیں۔

(2)۔۔۔ دوسری دلیل کا تعلق قبضہ کے ساتھ ہے، تقسیم کے ساتھ نہیں، جبکہ صورتِ مسئولہ میں مسئلہ قبضہ کا نہیں، بلکہ تقسیم کا ہے؛ اس لیے اس کو دلیل میں پیش کرنا درست نہیں۔ نیز ہبہ میں کوئی چیز کسی کے نام کرنے سے قبضہ مطلقا ثابت نہیں ہوتا، بعض صورتوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ ثابت ہوتا ہے جو بوقتِ ضرورت معلوم کی جاسکتی ہیں۔

(3)۔۔۔ اس دلیل سے متعلقہ تفصیل اصل سوال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔

(4)۔۔۔ صرف عرف کی وجہ سے اس ہبہ کو مطلقا درست کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

(5)۔۔۔ اس دلیل کی تفصیل اور وضاحت بھی اصل سوال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔

(6)۔۔۔ اگر ایک موہوب لہ فقیر اور دوسرا غنی ہو تو ان کو مشاعا کیا گیا ہبہ، صدقہ کے حکم میں نہیں ہوتا؛ اس لیے یہ دلیل بھی درست نہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر: 9)  

حوالہ جات
(1) الفتاوى الهندية (4/ 378):
أما الشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى خلافًا لهما، كذا في الذخيرة.
(2) المحيط البرهاني (6/ 151):
الشيوع من الطرفين مانع صحة الهبة وتمامها بالإجماع، ومن طرف الموهوب له مانع عند أبي حنيفة خلافاً لهما؛ لأن الشيوع من طرف الموهوب له لا يلحق ضماناً بالمتبرع، وهو المانع من تمام الهبة في الشيوع من الطرفين.
(3) فتاوى قاضيخان علی هامش الفتاوی الهندیة (3/ 268):
ولو وهب نصف الدار أو تصدق وسلم، ثم إن الواهب باع ما وهب أو تصدق، ذكر في وقف الأصل أنه يجوز بيعه؛ لأنه لم يقبض، ولو باعها الموهوب له لا يجوز بيعه؛ لأنه لم يملك، نص أن هبة المشاع قيما يقسم لا تفيد الملك وإن اتصل به القبض، وبه قال الطحاوي، وذكر عصام رحمه الله تعالى أنها تفيد الملك، وبه أخذ بعض المشايخ رحمهم الله تعالى.
(4) الفتاوی السراجیة، ط: زمزم (405):
هبة المشاع في ما یحتمل القسمة لاتجوز، سواء کان من شریکه أو من غیر شریکه. ولو قبضها، هل تفید الملك؟ ذکر حسام الدین رحمه الله تعالی في "کتاب الواقعات" أن المختار أنها لاتفید
الملك، وذکر في موضع آخر أنها تفید الملك ملکًا فاسداً، وبه یفتیٰ.
(5) الدر المختار (5/ 692):
( ولو سلمه شائعا لا يملكه فلا ينفذ تصرفه فيه ) فيضمنه وينفذ تصرف الواهب،  درر.   لكن فيها عن الفصولين:  الهبة الفاسدة تفيد الملك القبض، وبه يفتى، ومثله في البزازية عل خلاف ما صححه في العمادية، لكن لفظ الفتوى آكد من لفظ الصحيح، كما بسطه المصنف مع بقية أحكام المشاع. وهل للقريب الرجوع في الهبة الفاسدة؟ قال في الدرر: نعم!، وتعقبه في الشرنبلالية بأنه غير ظاهر على القول المفتى به من إفادتها الملك بالقبض، فليحفظ.
(6) رد المحتار (5/ 692):
 قوله ( ولو سلمة شائعا الخ ) قال في الفتاوى الخيرية: ولا تفيد الملك في ظاهر الرواية.  قال الزيلعي: ولو سلمه شائعا لا يملكه حتى لا ينفذ تصرفه فيه فيكون مضمونا عليه وينفذ فيه تصرف الواهب، ذكره الطحاوي وقاضيخان، وروي عن ابن رستم مثله، وذكر عصام أنها تفيد الملك، وبه أخذ بعض المشايخ، ا ه.
ومع إفادتها للملك عند هذا البعض أجمع الكل على أن للواهب استردادها من الموهوب له ولو كان ذا رحم محرم من الواهب. قال في جامع الفصولين رامزا لفتاوى الفضلي: ثم إذا هلكت أفتيت بالرجوع للواهب هبة فاسدة لذي رحم محرم منه؛ إذ الفاسدة مضمونة على ما مر، فإذا كانت مضمونة بالقيمة بعد الهلاك كانت مستحقة الرد قبل الهلاك ا هـ وكما يكون للواهب الرجوع فيها يكون لوارثه بعد موته لكونها مستحقة الرد، ويضمن بعد الهلاك كالبيع الفاسد إذا مات أحد المتبايعين فلورثته نقضه؛ لأنه مستحق الرد ومضمون بالهلاك.
ثم من المقرر أن القضاء يتخصص، فإذا ولى السلطان قاضيا ليقضي بمذهب أبي حنيفة لاينفذ قضاؤه بمذهب غيره؛ لأنه معزول عنه بتخصيصه، فالتحق فيه بالرعية، نص على ذلك علماؤنا رحمهم الله تعالى اهـ، ما في الخيرية.  وأفتى به في الحامدية أيضا والتاجية، وبه جزم في الجوهرة والبحر. ونقل عن المبتغى -بالغين المعجمة- أنه لو باعه الموهوب له لا يصح، وفي نور العين عن الوجيز: الهبة الفاسدة مضمونة بالقبض ولا يثبت الملك فيها إلا عند أداء العوض، نص عليه محمد في المبسوط، وهو قول أبي يوسف؛ إذ الهبة تنقلب عقد معاوضة ا هـ،  وذكر قبله: هبة المشاع فيما يقسم لا تفيد الملك عند أبي حنيفة، وفي القهستاني لا تفيد الملك، وهو المختار كما في المضمرات، وهذا مروي عن أبي حنيفة، وهو الصحيح ا هـ
فحيث علمت أنه ظاهر الرواية وأنه نص عليه محمد ورووه عن أبي حنيفة، ظهر أنه الذي عليه العمل وإن صرح بأن المفتى به خلافه، ولا سيما أنه يكون ملكا خبيثا كما يأتي، ويكون مضمونا  كما علمته، فلم يجد نفعا للموهوب له فاغتنمه، وإنما أكثرت النقل في مثل هذه لكثرة وقوعها وعدم تنبيه أكثر الناس للزوم الضمان على قول المخالف، ورجاءً لدعوة نافعة في الغيب.
قوله (بالقبض) لكن ملكا خبيثا، وبه يفتى، قهستاني، أي وهو مضمون كما علمته آنفا فتنبه. وفي حاشية المنح: ومع إفادتها للملك يحكم بنقضها للفساد ،كالبيع الفاسد ينقض له، تأمل. قوله (في البزازية) عبارتها: هل يثبت الملك بالقبض؟ قال الناطفي: عند الإمام لا يفيد الملك، وفي بعض الفتاوى يثبت فيها فاسدا، وبه يفتى. ونص في الأصل أنه لو وهب نصف داره من آخر وسلمها إليه فباعها الموهوب له لم يجز، دل أنه لا يملك حيث أبطل البيع بعد القبض، ونص في الفتاوى أنه هو المختار، ورأيت بخط بعض الأفاضل على هامش المنح بعد نقله ذلك، وأنت تراه عزا رواية إفادة الملك بالقبض والإفتاء بها إلى بعض الفتاوى، فلا تعارض رواية الأصل؛ ولذا اختارها قاضيخان، وقوله "لفظ الفتوى" الخ قد يقال بمنع عمومه لا سيما مثل هذه الصيغة في مثل سياق البزازي، فإذا تأملته تقضي برجحان ما دل عليه الأصل، اه.
قوله (وتعقبه) قد علمت ما فيه مما قدمناه عن الخيرية، فتنبه.
(7) تقریرات الرافعي، ط:دار إحیاء التراث العربي (2/251):
(قوله قد علمت ما فیه مما قدمناه، الخ) الذي تحرر أنهما قولان مصححان یجوز العمل بکل منهما، لکن أحدهما، وهو ما عبر عنه بلفظ الفتویٰ، آکد.
(8) فیض الباري (4/60):
ثم اعلم أن هبۃ المشاع لاتتم في أصل المذهب، وإن تحقق القبض أیضا، وأَفتی المتأخرون بجوازها، وبه أُفتي.
(9) تنقيح الفتاوى الحامدية (5/ 238):
 ووجه صحتها إذا كانت لفقيرين ما صرحوا به من أن الصدقة يراد بها وجه الله تعالى، وهو واحد، فلا شيوع، وإلا فقد صرحوا في المتون أيضا بأن الصدقة كالهبة لا تصح في مشاع يقسم، أي بأن يتصدق ببعضه على واحد .
والحاصل: أنه لو وهب داره مثلا التي تحتمل القسمة من غنيين لا يصح للشيوع خلافا لهما، ولو تصدق بها على فقيرين يصح اتفاقا لما مر، ولو وهب نصفها لواحد وتصدق به على فقير واحد لم يصح لتحقق الشيوع، والله سبحانه وتعالى أعلم .

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  21/ربیع الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب