021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں  جائیدادکی تقسیم میراث نہیں،بلکہ ہبہ ہے
78458میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:برائےمہربانی مندرجہ ذیل معاملات کےبارےمیں فتوی عنایت فرمائیں۔

میری پہلی مرحومہ بیوی سےچاربیٹیاں ہیں،دوسری بیوی سےکوئی اولاد نہیں ہے،میرےدو بھائی اوردوبہنیں حیات ہیں،4بہنیں وفات پاچکی ہیں،دونوں بھائی اوردونوں بہنوں نےمیرےترکہ میں اپنےحق سے دست برداری دےدی  ہے،میری کوئی غیرمنقولہ  جائیدادنہیں ہے،اس صورت میں میری  منقولہ جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی ،بصورت  دیگرحق سےدستبرداری کی صورت کیاہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ آپ  زندہ ہیں ،لہذا میراث کی تقسیم ابھی نہیں کی جاسکتی ،بلکہ جب آپ کاانتقال ہوگاتواس وقت موجودورثہ میں آپ کی جائیدادکو شریعت کےمطابق تقسیم کیاجائےگا۔

واضح رہےکہ میراث کی تقسیم انتقال ہونےکےبعد ہوتی ہے،جب تک آپ زندہ ہیں،اس وقت تک آپ کی جائیدادکوترکہ یا میراث شمارنہیں کیاجائےگا،زندگی میں جائیداد تقسیم کرناشرعاہبہ ہوتاہے،لہذاپنی زندگی میں آپ کسی وارث  کوکچھ  دینا چاہیں اورمالک بناکر قبضہ میں دےدیں تووہ جائیداداس  کی ذاتی ملکیت  ہوجائےگی،پھرآپ کی وفات کےبعد وہ میراث شمارنہیں ہوگی ۔

زندگی میں اپنی جائیدادتقسیم کرنےکی صورت یہ ہوسکتی ہےکہ بیوی،بہن  اوربھائیوں کوحسب ضرورت کچھ دیناچاہیں توان کو مالک بناکرقبضہ میں دینےسےان کی ملکیت ہوجائےگی،اوالادکےعلاوہ  دیگرورثہ کےحصوں میں برابری شرعالازم نہیں، ان کوحسب ضرورت جائیداددی جاسکتی ہے۔البتہ اپنی اولادیعنی بیٹیوں میں جائیداد برابرتقسیم کرکےدی جائے،موجودہ صورت میں یہ طریقہ اختیارکیاجاسکتاہےکہ بیوی اوربہن بھائیوں کوحسب ضرورت جائیداددینےکےبعد بیٹیوں میں برابرتقسیم کردی جائے۔

حوالہ جات
"صحیح البخاری "418 :  قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعدلوابین اولادکم فی العطیۃ ۔
"البحرالرائق" 7/490 : وفی الخلاصۃ: المختارالتسویۃ بین الذکرواالانثی فی الھبۃ ۔
"الفتاوى الهندية "35 /  24:ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا ، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين ، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار ، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار ، كذا في الظهيرية ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

13/جمادی الاولی   1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب