021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کو "جاؤ  تم آزاد ہو”کہنے سے طلاق واقع ہو گی یا نہیں   ؟
78667طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

اگر شوہر  بیوی سے کہے:" جاؤ تم آزاد ہو ، جو چاہے کرو " پھر بعد میں کہے کہ میری نیت  طلاق کی نہیں تھی ،تو اس صورت میں طلاق  واقع ہوگی    یا نہیں  ؟اور شوہر کی نیت کا پتا کیسے چلے گا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرشوہر نے  مذکورہ الفاظ غصے  کی حا لت میں یا باہم طلاق کی  باتیں کرتے ہوئے کہے ہیں  تو ان  سےبیوی پر طلاق  بائن  واقع ہو گئی ہے  ،  کیونکہ " جاؤ تم آزاد ہو " کے الفاظ اگر غصے کی حالت میں یا طلاق کی بات چیت کے دوران بولے جائیں تو ان سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔اگر مذکورہ کیفیات میں سے کوئی کیفیت نہیں تھی تو اس صورت میں اگر  خاوند کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر طلاق کی   نیت نہیں تھی تو طلاق نہیں ہوگی ۔

شوہر کی نیت کا پتا اس کے بتانے سے  ہی چلے گا  ۔ اگر وہ کہے کہ میری نیت  طلاق کی تھی تو طلاق واقع ہو جائے گی، چاہے بیوی اس کی تصدیق کرے یا  نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ کہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی اور بیوی کو اس پر اعتماد ہواور وہ اس کی تصدیق کر دے    تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔  اوراگر  بیوی  اس کی تصدیق نہ کرے  تو اگر   شوہر قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میری نیت طلاق کی  نہیں  تھی تو اس  کا اعتبار ہوگا  اور طلاق نہیں ہوگی ۔لیکن اگر شوہر بیوی کے سامنے  قسم  سے انکار کرے تو  قاضی   کی  طرف  رجوع کیا جائے  گا  ، اگر وہ قاضی  کے سامنے  بھی قسم  کھانے سے انکار کردے تو قاضی دونوں میاں بیوی میں جدائی کا فیصلہ  کردے گا ۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :فنحو أخرجی و إذھبی یحتمل ردا، و نحو خلیۃ،  بریۃ ، حرام  یصلح سبا  ،  ونحوإعتدی وأنت حرۃ ..لایحتمل الردوالسب، ففی حالۃ الرضا تتوقف الأقسام) الثلاثۃ تاثیرا( علی نیۃ)للإحتمال، والقول لہ بیمینہ فی عدم النیۃ ، و یکفی تحلیفھا لہ فی منزلہ ، فإن أبی رفعتہ للحاکم ، فان نکل فرق بینھما .مجتبی).وفی الغضب) توقف) الأولان )إن نوی وقع وإلالا )و فی مذاکرۃ الطلاق( یتوقف )الأول فقط( ویقع بالأخیرین  وإن لم ینو.
(الدر المختارمع التنویر:4/532،(533
و فی الفتاوی الھندیۃ : الکنایات ، لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال....وما يصلح جوابا وردا لا غير : أخرجي، إذهبي .والأحوال ثلاثة:حالة الرضا  ، وحالة  مذاكرة الطلاق وحالةالغضب   ، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية ،  والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا  ؛ فإنه لا يجعل طلاقا .كذا في الكافي. وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب.(الفتاوی الھندیۃ: 1/410 )
قال الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی : أنت منى بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ، وإن لم ينو الطلاق لم يقع عليها الطلاق . وإن نوى الطلاق فهو مانوى . وكذاك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا ، كقوله ... أنت حرة ، ينوى الطلاق .(کتاب الأصل محمد : ٤٥٣/٤)
فى التتارخانية : وأما مدلولات الطلاق ، فهو مثل قوله : إذهبي ، وقومى ..... وما شاكلها ، إذا نوى الطلاق بهذه الألفاظ يقع بائنا ، وإن نوى الثلاث ثلاثاً .... وإن قال :" لم أرد به الطلاق " أولم تحضره النية لا يكون طلاقا ، سواء كانت الحالة حالة الرضا أو حالة مذاكرة الطلاق أو حالة الغضب ، هذا فى ظاهر الرواية . (الفتاوى التارخانية : ٤٦٠/٤)
قال العلامة الزیلعی رحمه الله : وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا و شتيمة، وهي خمسة ألفاظ : أخرجى ، إذهبي ، أغربى ، قومی ، تقنعى ومرادفها ، ففى حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للإحتمال، والقول قوله مع يمينه في عدم النية. (تبيين الحقائق : 3/80)
قال العلامۃ المرغینانی ر حمہ اللہ  تعالی :و بقیۃ الکنایات إذا نوی بھا الطلاق  :کانت وا حدۃ بائنۃوھذا مثل قولہ : أنت بائن….وأنت حرۃ واذھبی إلا أن یکونا فی حال مذاکرۃ الطلاق : فیقع بھا الطلاق فی القضاء ، ولایقع فیما بینہ وبین اللہ تعالی  ، إلا أن ینویہ.
(الھدایۃ : 3/192)

 محمد مدثر

  دارالافتاء  ، جامعۃ الرشید  ، کراچی

04/ جمادی الثانیہ/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مدثر بن محمد ظفر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب