021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نفع و نقصان کی بنیاد پر عوام سے سرمایہ لینے کا حکم
79389شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

فضل منان انٹرپرائز اپنے انوسٹرز کو مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق انوسٹرز سے پیسے لیتی ہے:

شرکت نفع نقضان کی بنیاد پر ہے۔اگر نفع نہ ہوا تو کسی کو منافع نہیں دیا جائے گا اور اگر نفع ہوا تو اس کا ۲۰ فی صد انوسٹرز کو ملے گا۔کیا اس طرح کاروبار کرنا درست ہے؟

وضاحت: ۵۰فیصد سے زائد سرمایہ انوسٹرز کا ہے اور کسی انوسٹر کو بزنس آپریشنس میں شامل ہونے سے روکا نہیں جاتا ہے بلکہ اگر وہ کوئی عمل کرے تو اس کو اضافی اجرت دی جاتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرکت العقد اور مضاربت دونوں میں تقسیمِ نفع کی کوئی بھی نسبت شرکاء باہمی رضامندی سے طے کر سکتے ہیں۔

مذکورہ معاملہ شرکت عقد کا  ہے،جسمیں شرعاً نفع کے ساتھ نقصان میں بھی ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے ذمہ دار ہونا ضروری ہوتا ہے، لہذا اگر اس کاروبار میں انوسٹرز کو سرمایہ کی ضمانت نہیں دی جاتی اور ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اس طرز پر کاروبار کیا جاتا ہے تو  یہ  درست ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/648)
"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة… (قوله: في الربح) كما إذا شرط له نصف الربح أو ثلثه بأو الترديدية س (قوله فيه) كما لو شرط لأحدهما دراهم مسماة س (قوله بطل الشرط) كشرط الخسران على المضارب"
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي( 5/54)
" (قوله في المتن ويكون الربح بينهما مشاعا) قال الأتقاني وذلك؛ لأن المقصود من عقد المضاربة هو الشركة في الربح فإذا اشترط لأحدهما دراهم مسماة كالمائة ونحوها تفسد المضاربة؛ لأن شرط ذلك يفضي إلى قطع الشركة؛ لأنه ربما لا يكون الربح إلا ذلك القدر فلا يبقى للآخر شيء من الربح قال شمس الأئمة البيهقي في الكفاية شرطه أن يكون قدرا معلوما مشاعا من كل الربح مثل الثلث والربع فإذا شرط لأحدهما مائة من الربح مثلا أو مائة مع الثلث أو الثلث إلا مائة والباقي للآخر لم تجز المضاربة؛ لأنه يؤدي إلى قطع الشركة في الربح لجواز أن لا يربح إلا ذلك القدر"

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  ۱۹ رجب ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب