021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ کمائی سے خریدی گئی زمین کا حکم
79961شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں:

ہم پانچ بھائی ساٹھ ستّر سال سے اکھٹے رہ رہے تھے۔ سب بھائیوں کی آمدنی/تنخواہ والد صاحب مشترکہ طور پر گھر کے اخراجات کے لیے استعمال کرتے تھے۔جولائی 1990ء میں بڑا بھائی فوج سے پنشن پر آیا۔ والد نے ہم سب بھائیوں کے لیے مشترکہ طور پر چھ کنال زمین مبلغ ساٹھ ہزار (60000)روپےپر مکانات بنانے کے لیے خریدی۔ جس میں بڑے بھائی نے چالیس ہزار(40000)روپے دیے اور باقی بیس ہزار (20000) روپے مشترکہ آمدنی سے ادا کی گئی ہے۔ زمین والد صاحب کے نام پر منتقل ہوگئی ہےاور ہم نے مشترکہ طور پر اپنے اپنے مکانات بنالیے۔ کسی بھائی کے نام پر علیحدہ زمین انتقال نہیں ہوئی ہے۔ والد صاحب 2006ء میں وفات پاگئے ہیں ۔ اس کے بعد بھی ہم سب اکھٹے رہتے تھے۔ جنوری 2021ء میں مشورے سے ہم سب بھائی علیحدہ ہوگئے اورکھانا پینا الگ ہوگیا۔ اب جب زمین کی تقسیم کا مسئلہ آگیا تو بڑا بھائی کہنے لگا کہ مجھے چار کنال زمین دے دو۔ ہم باقی بھائی کہتے ہیں کہ ساری زمین برابر سرابر تقسیم ہوگی۔ اس دوران بتیس (32) سال گزر گئے ۔ بڑے بھائی نے کبھی ذکر نہیں کیا ہے نہ والد صاحب نے ہمیں کچھ کہا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ

  1. کیا یہ چار کنال زمین بڑے بھائی کا حق بنتا ہےجو ہم سے مانگ رہا ہے؟
  2. اس چالیس ہزار رقم کا ہم موجودہ رقم کے ساتھ موازنہ کرکے ادا کرنے کے پابند ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسؤلہ میں اگر بڑے بھائی نے والد کو پیسے دیتے وقت یہ تصریح کی تھی کہ یہ پیسے لو اور اس سے میرے لیے زمین خریدوتو یہ وکالت کا معاملہ ہوگا اور اس کے پیسوں سے خریدی گئی زمین کا وہ خود مالک  ہوگا اور اس کی زمین کو باپ کی وراثت میں بھائیوں میں برابر تقسیم نہیں کیا جائیگا۔ لہٰذا اس صورت میں اگر وہ رضامندی سے آپ کو بیچنا چاہے تو جس قیمت پر راضی ہوبیچ سکتا ہے اوراگر بیچنے پر راضی نہیں ہو تو اس کی زمین پر جو آپ کی تعمیرات ہے اس میں یہ تفصیل ہے کہ بھائی اگر وہ تعمیرات خریدنے پر راضی ہو تو اس کی قیمت دے کر مالک بھی بن سکتا ہےاور اگر قیمت دینے پر راضی نہیں تو آپ اپنی تعمیرات اکھیڑ کر اس کو اس کی زمین فارغ کرنے کے پابند ہیں۔

اگر بڑے بھائی نے والد کو پیسے دیتے وقت قرض کی تصریح یا اُس کی نیّت کی تھی تو یہ رقم قرض شمار ہوگی جو  والد کے ترکہ سے بڑے بھائی کو لوٹانا ضروری ہوگا۔ البتہ قرض کی رقم سے خریدی گئی زمین کا مالک والد ہی ہوگا مگر ایسی صورت میں وہ زمین والد کے ورثہ میں بقدر حصص شرعیہ تقسیم کی جائیگی۔نیز قرض کی واپسی میں وہی چالیس ہزار روپے واپس کرنا ضروری ہوگا ۔ مکان کی موجودہ مالیت کے لحاظ سے رقم لوٹانے کے مطالبے کا ان کو حق نہیں ہوگا۔

اگر قرض دیتے وقت بڑے بھائی نے نہ وکالت کی تصریح کی تھی اور نہ قرض کی اور قرض کی نیت بھی نہیں تھی تو پھر یہ بڑے بھائی کی طرف سے والد کے لیے تبرّع اورہدیہ شمار ہوگا اورایسے میں  بڑے بھائی کی طرف سے اس رقم کی  واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
بداية المبتدي (ص: 160)
باب الوكالة بالبيع والشراء  فصل في الشراء
 ومن وكل رجلا بشراء شيء فلا بد من تسمية جنسه وصفته أو جنسه ومبلغ ثمنه إلا أن يوكله وكالة عامة فيقول ابتع لي ما رأيت ثم إن كان اللفظ يجمع أجناسا أو ما هو في معنى الأجناس لا يصح التوكيل وإن بين الثمن وإن كان جنسا يجمع أنواعا لا يصح إلا بيان الثمن أو النوع وفي الجامع الصغير ومن قال لآخر اشتر لي ثوبا أو دابة أو دارا فالوكالة باطلة وإن سمى ثمن الدار ووصف جنس الدار والثوب جاز ومن دفع إلى آخر دراهم وقال اشتر لي بها طعاما فهو على الحنطة ودقيقها
الهداية شرح البداية (3/ 222)
قال: وعارية الدراهم والدنانير والمكيل والموزون والمعدود: قرض ؛ لأن الإعارة تمليك المنافع ولا يمكن الانتفاع بها إلا باستهلاك عينها فاقتضى تمليك العين ضرورة وذلك بالهبة أو القرض والقرض أدناهما فيثبت أو لأن من قضية الإعارة الانتفاع ورد العين فأقيم رد المثل مقامه قالوا هذا إذا أطلق الإعارة وأما إذا عين الجهة بأن استعار دراهم ليعاير بها ميزانا أو يزين بها دكانا لم تكن قرضا ولا يكون له إلا المنفعة المسماة فصار كما إذا استعار آنية يتجمل بها أو سيفا محلى يتقلده
المجلة (ص: 159)
 مادة 831 استعارة 767 الأرض لغرس الأشجار والبناء عليها صحيحة 108 لكن للمعير 766 أن يرجع بالإعارة 766 متى شاء فإذا رجع لزم المستعير 767 قلع الأشجار ورفع البناء ثم إذا كانت الإعارة مؤقتة فرجع المعير عنها قبل مضي الوقت وكلف المستعير قلع الأشجار ورفع البناء ضمن 416 للمستعير تفاوتقيمتها 154 بين وقت القلع وانتهاء مدة الإعارة مثلا إذا كانت قيمة البناء والأشجار مقلوعة 884 حين الرجوع عن الإعارة اثنى عشر دينارا وقيمتها لو بقيت إلى انتهاء وقت الإعارة عشرون دينارا وطلب المعير قلعها لزمه أن يعطي للمستعير ثمانية دنانير .
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 301)
 - الإعارة الواردة على استهلاك العارية قرض فاسد : فلو أعيرت القيمات على أن تستهلك تكون قرضا مثلا لو استعار أحد لوحا من الخشب أو مقدارا من اللبن ليستعملها في بنائه أو استعار قماشا ليرفع به ثوبه فلا يكون ذلك استعارة حقيقية بل يكون قرضا وعلى المستقرض أن يضمن بدل القرض أي قيمة المال الذي استهلكه لكن لو استعار ذلك على أن يعيده إلى صاحبه كان ذلك إعارة أيضا ( تكملة رد المحتار ) . كذلك لو قال أحد لآخر : قد أعرتك هذا الطبق من الحلوى , فأخذه الآخر واستهلكه ضمنه ذلك الشخص على أنه قرض ما لم يكن بينهما صداقة وعدم كلفة تدل على الإباحة وفي حالة وجود ذلك يكون هذا العمل إباحة .
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 301)
 والسبب في حمل إعارة هذه الأشياء على القرض : هو أن إعارتها إذن بالانتفاع بها والانتفاع بها إنما يكون باستهلاك أعيانها والاستهلاك يتوقف على الملك فيقتضي بالضرورة تمليك العين , وتمليك العين كما أنه يكون بالهبة يكون أيضا بالقرض والواقع أن القرض أدنى من الهبة في الضرر ; لأن القرض يستلزم رد مثله وهذا المثل يقوم مقام العين التي صار إقراضها ( تكملة رد المحتار )

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

29/رجب الخیر/ 1444ھشرکت کے مسائل

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب