03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد کے درمیان مکان تقسیم کرنےکا حکم
80311ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

دو سو چالیس اسکائر یارڈ دو منزلہ مکان ہے،ایک بیٹا میرے ساتھ رہائش پذیر ہے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی علیحدہ اپنی فیملی کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں مکان کی تقسیم کی شرعی صورت کیا ہو سکتی ہے ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کو دینا  دراصل ہبہ (گفٹ) ہے نہ کہ میراث۔  اورہبہ کے بارے میں اگرچہ شرعاً اور قانوناً والد کو یہ اختیار ہے کہ آدمی جتنی جائیداد چاہے اولاد کو دے اور جتنی چاہے اپنے پاس رکھے، اولاد باپ کو اس کے مال میں سے کوئی حصہ  دینے پر مجبور نہیں کر سکتی، کیونکہ زندگی میں ہر شخص اپنے مال و جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے، تاہم اگروالدزندگی میں اولاد کے درمیان اپنا مال تقسیم کرنا چاہے تو اس بارے میں شریعت کی اصل ہدایت یہ ہے کہ سب اولاد کو برابر حصہ دے یا بیٹیوں کو کم از کم بیٹوں کی بنسبت  آدھا حصہ دے، لیکن اگر کسی بیٹے یا بیٹی کی خدمت، دینداری یا مالی حالت کی تنگی کی بنیاد پر اس کو کچھ حصہ زیادہ دےدیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

اس اصول کو پیشِ نظررکھ کر آپ جتنا چاہیں اپنے بیٹوں اور بیٹی کے درمیان مکان تقسیم کر سکتے ہیں، مثلا: اگر مکان کی دو منزلیں دو بیٹوں کو الگ الگ قبضہ کرا دیتے ہیں اور ایک منزل کی قیمت کے برابر اس کے نصف کے برابر رقم بیٹی کوگفٹ کر دیتے ہیں تو یہ جائز ہو گا۔

حوالہ جات

الفتاوى الهندية (4/ 374) دار الفكر، بيروت:

أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز. وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ وعدم صحة خيار الشرط فيها فلو وهبه على أن للموهوب له الخيار ثلاثة أيام صحت الهبة إن اختارها قبل أن يتفرقا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127) دار الكتب العلمية، بیروت:

(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل  بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي- عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

13/ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب