021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیوی اور بیٹی میں تقسیم میراث
80327میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ابراہیم کا انتقال ہوچکا ہے، اس کی دو بیویاں ہیں،  جن میں سے ایک بیوی (درانیہ )کا ابراہیم کے بعد انتقال ہوگیا ہے اور درانیہ سے ابراہیم کی ایک بیٹی ہے۔

ابراہیم اکلوتا تھا، اس کے بھائی بہن نہیں تھے۔اس کے والدین کا بھی انتقال ہوچکا  ہے۔

ابراہیم کی میراث میں کون حصے دار ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں  سونا،  نقدی، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار، غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب ان کا ترکہ یعنی میراث ہے ۔اس سے متعلق حکم یہ ہے  کہ سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا ۔اس کے بعد اگر ان  کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر انہوں  نے کسی غیر ِوارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی(1/3) ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو بچ جائے اس کے 8 حصے کر کے درج ذیل نقشے کے مطابق ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

زوجہ اول

1/2    حصہ

6.25% (نصف ِثمن)

زوجہ ثانی   

1/2 حصہ

6.25% (نصفِ  ثمن)

بیٹی 

7 حصے

87.5% (فرض +  رد)

ٹوٹل

8 حصے

100 %

 ابراہیم کے انتقال کے بعد جس بیوی کا انتقال ہوا ہے، وہ بھی اس کی وارث ہوگی۔

حوالہ جات
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن} [النساء: 12]
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (4/ 83-84)
للمرأة من ميراث زوجها الربع إذا لم يكن له ولد، ولا ولد ابنٍ، فإن كان له ولد، أو ولد ابنٍ، وإن سفل: فلها الثمن.
قال: (والمرأتان، والثلاث، والأربع شركاء في الربع أو الثمن).

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

16 / ذیقعدہ / 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب